چہرے پہ کسی کرب کی تنویر نہیں کی
چہرے پہ کسی کرب کی تنویر نہیں کی محسوس ہی کرتے رہے تفسیر نہیں کی قدموں کو حقیقت کی زمیں پر ہی دھرا ہے خوش فہمی کی جنت کبھی تعمیر نہیں کی واعظ کے کبھی نقش قدم پر نہ چلے ہم خود کر کے دکھایا کبھی تقریر نہیں کی معصوم چراغوں کو ہواؤں نے بجھایا کیوں بھڑکے ہوئے شعلوں پہ تعذیر نہیں ...