کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں
کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز تیری آنکھیں ترے ...