قومی زبان

کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں

کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز تیری آنکھیں ترے ...

مزید پڑھیے

آئنہ ملتا تو شاید نظر آتے خود کو

آئنہ ملتا تو شاید نظر آتے خود کو اب وہ حیرت ہے کہ پہروں نہیں پاتے خود کو آشنا لوگ جو انجام سفر سے ہوتے صورت نقش قدم آپ مٹاتے خود کو ایک دنیا کو گرفتار غم جاں دیکھا یوں نہ ہوتا تو تماشا نظر آتے خود کو آئنہ رنگ کا سیلاب ہے پایاب بہت آنکھ ملتی تو یہ منظر بھی دکھاتے خود کو اب یہ ...

مزید پڑھیے

واہمہ ہوگا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا

واہمہ ہوگا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا میرے سایہ ہی مرے جسم سے لپٹا ہوگا چاند کی طرف نگاہوں میں لئے خواب طرب اور اک عمر ابھی خاک پہ سونا ہوگا اشک آئے ہیں تو یہ سیر چراغاں بھی سہی اس سے آگے تو وہی خون کا دریا ہوگا گر کبھی ٹوٹی بدلتی ہوئی رت کی زنجیر ایک اک پھول یہاں خود کو ترستا ...

مزید پڑھیے

تھا پس مژگان‌ تر اک حشر برپا اور بھی

تھا پس مژگان‌ تر اک حشر برپا اور بھی میں اگر یہ جانتا شاید تو روتا اور بھی پاؤں کی زنجیر گرداب بلا ہوتی اگر ڈوبتے تو سطح پر اک نقش بنتا اور بھی آندھیوں نے کر دیئے سارے شجر بے برگ و بار ورنہ جب پتے کھڑکتے دل لرزتا اور بھی روزن در سے ہوا کی سسکیاں سنتے رہو یہ نہ دیکھو ہے کوئی یاں ...

مزید پڑھیے

دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے

دل تھا پہلو میں تو کہتے تھے تمنا کیا ہے اب وہ آنکھوں میں تلاطم ہے کہ دریا کیا ہے شوق کہتا ہے کہ ہر جسم کو سجدہ کیجے آنکھ کہتی ہے کہ تو نے ابھی دیکھا کیا ہے ٹوٹ کر شاخ سے اک برگ خزاں آمادہ سوچتا ہے کہ گزرتا ہوا جھونکا کیا ہے کیا یہ سچ ہے کہ خزاں میں بھی چمن کھلتے ہیں میرے دامن میں ...

مزید پڑھیے

دل کی بات نہ مانی ہوتی عشق کیا کیوں پیری میں

دل کی بات نہ مانی ہوتی عشق کیا کیوں پیری میں اپنی مرضی بھی شامل ہے اپنی بے توقیری میں درد اٹھا تو ریزہ دل کا گوشۂ لب پر آن جما خوش ہیں کوئی نقش تو ابھرا بارے بے تصویری میں قید میں گل جو یاد آیا تو پھول سا دامن چاک کیا اور لہو پھر روئے گویا بھولے نہیں اسیری میں جانے والے چلے گئے ...

مزید پڑھیے

موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے

موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے دریا کے سارے رنگ مری تشنگی میں آئے پھر ایک روز آن ملا ابر ہم مزاج مٹی نمو پذیر ہوئی تازگی میں آئے دامن بچا رہے تھے کہ چہرہ بھی جل گیا کس آگ سے گزر کے تری روشنی میں آئے یہ میں ہوں میرے خواب یہ شمشیر بے نیام اب تیرا اختیار ہے جو تیرے جی میں آئے اک ...

مزید پڑھیے

کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا

کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا میں شاخ عصر پہ بیٹھا ہوا پرندہ تھا بدن میں دل تھا معلق خلا میں نظریں تھیں مگر کہیں کہیں سینے میں درد زندہ تھا پھر ایک رات مجھی پر جھپٹ پڑا مرا ضبط جسے میں پال رہا تھا کوئی درندہ تھا خوشی نے ہاتھ بڑھایا تھا میری جانب بھی مگر وہاں جہاں ہر شخص ...

مزید پڑھیے

کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی

کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی روشنی پہلے نہ تھی دل کی فضا میں ایسی اور پھر اس کے تعاقب میں ہوئی عمر تمام ایک تصویر اڑی تیز ہوا میں ایسی جیسے ویران حویلی میں ہوں خاموش چراغ اب گزرتی ہیں ترے شہر میں شامیں ایسی آنکھ مصروف ہے زنبیل ہنر بھرنے میں کس نے رکھی ہے کشش ارض و سما میں ...

مزید پڑھیے

یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے

یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے دل جو اس وقت مرے ہات سے نکلا ہوا ہے مڑ کے دیکھے بھی تو پتھر نہیں ہوتا کوئی جانے کیا شہر طلسمات سے نکلا ہوا ہے رات یہ کون سا مہمان مرے گھر آیا سارا گھر حلقۂ آفات سے نکلا ہوا ہے حجرۂ ہجر میں بیٹھا ہے جو مجذوب صفت عرصۂ شور مناجات سے نکلا ہوا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 533 سے 6203