اڑتے دیکھا جو طائر پراں کو
اڑتے دیکھا جو طائر پراں کو اڑنے کی امنگ لے اڑی انساں کو گولے برسائے زمیں پر اس نے پرواز نصیب جب ہوئی ناداں کو
اڑتے دیکھا جو طائر پراں کو اڑنے کی امنگ لے اڑی انساں کو گولے برسائے زمیں پر اس نے پرواز نصیب جب ہوئی ناداں کو
جب کالی گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں ساون کا گیت کوئلیں گاتی ہیں تب یاد میں گزری ہوئی برساتوں کی آنکھیں مری سیل اشک برساتی ہیں
کالا انسان ہو یا کوئی زرد انسان رنگت میں ہو یا چاند کی گرد انسان خارج انسانیت سے اس کو سمجھو انساں کا اگر نہیں ہے ہمدرد انسان
دروازے پہ تیرے اک جہاں جھکتا ہے اونچے اونچوں کا سر یہاں جھکتا ہے کیوں کر نہ جھکے زمیں میں وقعت کیا ہے با عجز و نیاز آسماں جھکتا ہے
ظاہر میں قضا بہت ستم ڈھاتی ہے جاں سن کے اجل کا نام ڈر جاتی ہے لیکن ہر موت کا نتیجہ ہے حیات ہر شام پیغام صبح نو لاتی ہے
راز ہستی بشر کو ہو کیا معلوم سرگرداں عقل ہے نتیجہ معلوم با وصف ہزار علم اس کو اپنا آگا معلوم ہے نہ پیچھا معلوم
جنگل کی یہ دل نشیں فضا یہ برسات یہ نغمۂ باراں یہ ہوا یہ برسات سامان وارفتگئ شاعر کے ہیں کوئل کی یہ کوک یہ گھٹا یہ برسات
ہم بھول کو اپنی علم و فن سمجھے ہیں غربت کے مقام کو وطن سمجھے ہیں منزل پہ پہنچ کے جھاڑ دیں گے اس کو یہ گرد سفر ہے جس کو تن سمجھے ہیں
فریاد ہے کس لیے در یزداں پر الزام تراشتے ہو کیوں شیطاں پر یزداں نے کئے کبھی نہ شیطاں نے کئے انساں نے کئے ہیں جو ستم انساں پر
زنداں میں شہیدوں کا وہ سردار آیا شیدائے وطن پیکر ایثار آیا ہے دار و رسن کی سرفرازی کا دن سردار بھگت سنگھ سردار آیا تا دار و رسن شوق سے اٹھلا کے گیا تو شان شہادت اپنی دکھلا کے گیا ٹکڑے ہوتا ہے دل ترے ماتم میں لاشے کا انگ انگ کٹوا کے گیا پی کر مئے شوق جھومنا وہ تیرا بے پروایانہ ...