تم
آؤ ایک رات کہ پہن لوں تمہیں اپنے تن پر لباس کی مانند تم کو سینہ پہ رکھ کے سو جاؤں آسمانی کتاب کی مانند اور ترے حرف جان جاں ایسے پھر مری روح میں اتر جائیں جیسے پیغمبروں کے سینہ پر کوئی سچی وحی اترتی ہے
آؤ ایک رات کہ پہن لوں تمہیں اپنے تن پر لباس کی مانند تم کو سینہ پہ رکھ کے سو جاؤں آسمانی کتاب کی مانند اور ترے حرف جان جاں ایسے پھر مری روح میں اتر جائیں جیسے پیغمبروں کے سینہ پر کوئی سچی وحی اترتی ہے
خیال کچھ یوں بلکھتے ہیں سینہ میں جیسے گناہ پگھلتے ہوں جیسے لفظ چٹکتے ہوں جیسے روحیں بچھڑتی ہوں جیسے لاشیں پھنپھناتی ہوں جیسے لمس کھردرے ہوں جیسے لب دردرے ہوں جیسے کوئی بدن کترتا ہو جیسے کوئی سمن کچرتا ہو خیال تیرے کچھ یوں بلکھتے ہیں سینہ میں
حقیقت سے جو آشنا ہو گیا قیود ہوس سے رہا ہو گیا نقوش عمل کو مٹا کر کوئی امیر طلسم دعا ہو گیا وہ قید تصور سے آزاد ہے لطافت کا جو آئنہ ہو گیا تہی دامنی سے پشیماں تھے ہم وہ تر دامنی پر خفا ہو گیا ہے چہروں پہ کیوں چھائی پژمردگی شگفتہ دلوں کو یہ کیا ہو گیا جو خود خالق مدعا تھا ...
وہی حادثوں کے قصے وہی موت کی کہانی ابھی دسترس سے باہر ہے شعور زندگانی جو مٹا کے اپنی ہستی بنا غم گسار صحرا اسے راس کیسے آتی ترے در کی پاسبانی وہی شخص لاابالی ہوا منکر حقیقت جسے چلمنوں کی سازش سے ملی تھی بد گمانی نہ غبار کارواں ہے نہ نشان راہ منزل کوئی عکس ماورا کی کرے کیسے ...
تیرے لمس کو میری انگلیاں نگل گئی تیری آنکھوں کا میرے ہونٹوں کو چھونا ابھی تک کانپ رہا ہے ذہن میں کہی
سنکری سی اوس گلی میں دونوں طرف ہزاروں جذبات کی کھڑکیاں کھلتی ہے جگنو ٹمٹماتے ہے روئی کے پھوہوں سے لمحے تیرتے ہیں شام رنگ سپنے جھلملاتے ہیں تتلیوں کے پنکھوں کا سنگیت گھلتا ہے ریشمی لفظوں کی خوشبو مہکتی ہے سنکری سی اس گلی میں تیری آنکھوں سے میرے دل تک جو پہونچتی ہے
تمام خوابوں کی آنکھیں ادھورے فسانے کے آخری گیت کو تمہاری آنکھوں سے سننا چاہیں گی درد فسردہ راتوں کے زرد چہرہ تمہاری پرچھائیوں میں پناہ ڈھونڈیں گے روشن یادوں کے مردہ مرجھائے بدن کانچ کی موٹی دھندلی دیوار میں دفن رہیں گے امیدوں کے جنازے روز اٹھیں گے چیخوں کے حلق سے زبانیں کھینچ ...
یہ بھی رات گزر رہی ہے کمرے کی بکھری چیزیں سمیٹتے ہوئے تمہارے جانے کے باد تمہاری چہل قدمیاں گھومتی رہتی ہیں دل کے آنگن میں گونجتی رہتی ہیں تمہاری سرگوشیاں میرے کانوں میں بستر کی سلوٹیں منہ چڑھانے لگتی ہیں اس بار سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑوں پر محسوس کرتی ہوں تمہارے ہونٹوں کا لمس ادھر ...
سنو نہ کہیں سے کوئی کاربن پیپر لے آؤ خوب صورت اس وقت کی کچھ نقلیں نکالیں کتنی پرچیوں میں جیتے ہیں ہم لمحوں کی بیش قیمتی رسیدیں بھی تو ہیں کچھ تو حساب رکھیں ان کا قسمت پکی پرچی تو رکھ لے گی زندگی کی کچھ کچی پرچیاں ہمارے پاس بھی تو ہوں گی کچھ نقلیں کچھ رسیدیں لکھائیاں کچھ مٹھیوں ...
سوئیاں کھانے کا من کرتا ہے کب ہارے میں رکھی ہاندی اترے گی کب ماں سوئیاں پروسے گی کب سے تھالی لیے کھڑی ہوں پہلے دھواں گہرا تھا آنکھوں میں چبھتا تھا کھارا تھا بہت اب ہلکا ہے جھینا ہے خوشبو آتی ہے دھوئیں سے گر گر کی آوازیں آنے لگی ہے ماں ہاندی اتار لو سوئیاں پک گئی ہیں