قومی زبان

اے صبا نکہت‌ گیسوۓ معنبر لانا

اے صبا نکہت‌ گیسوۓ معنبر لانا کوئی تحفہ گل‌ و نسرین سے خوشتر لانا شبنمستان محبت کی حسیں راہوں سے خنکیٔ شبنم و نور مہ و اختر لانا جاں بہ لب ہیں ترے مشتاق سر راہ حیات دم عیسی و مئے لعل و گل تر لانا عشق ہو مست و غزلخوان و صراحی بر دوش زندگی تازہ و سرشار و معطر لانا در خور محفل و ...

مزید پڑھیے

بہت دنوں میں ہم ان سے جو ہم کلام ہوئے

بہت دنوں میں ہم ان سے جو ہم کلام ہوئے دل و نظر ہمہ تن سجدہ و سلام ہوئے ہنوز جیسے مسیحا کی آمد آمد ہے اگرچہ عمر ہوئی زندگی تمام ہوئے شفق سی خیمۂ جاناں کی سمت باقی ہے تمام وادی و کہسار غرق شام ہوئے کئی گلے تھے جو شور جہاں میں ڈوب گئے کئی ستم تھے جو احسان بن کے عام ہوئے کسی طرف ...

مزید پڑھیے

اجڑ کے گھر سے سر راہ آ کے بیٹھے ہیں

اجڑ کے گھر سے سر راہ آ کے بیٹھے ہیں ہم اپنی ضد میں سبھی کچھ گنوا کے بیٹھے ہیں کہاں تک اپنی ہی پرچھائیوں سے بھاگیں گے یہ لوگ جو تری محفل میں آ کے بیٹھے ہیں اب آہ و زاریٔ غم خوار کا فریب کھلا یہ مہرباں بھی وہیں دل لگا کے بیٹھے ہیں عذاب حشر کا کیا ذکر ہم سے اے واعظ ہم اس بلا کو یہیں ...

مزید پڑھیے

جی میں ہے اک دن جھوم کر اس شوخ کو سجدہ کروں

جی میں ہے اک دن جھوم کر اس شوخ کو سجدہ کروں سجدے سے پھر اللہ تک اک راستہ پیدا کروں بس ہو چکا اہل جہاں اب یہ تماشہ کب تلک کیا چشم ظاہر سے ملا کیا دیدۂ دل وا کروں ہاں ہاں وہ بازی گر سہی مٹی کا اک پیکر سہی تیری نظر سے ہم نشیں کیسے اسے دیکھا کروں جیسے کہیں ہے کچھ کمی تصویر بنتی ہی ...

مزید پڑھیے

لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے

لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے چارہ سازوں کو مری شام بلا بھی نہ ملے حسرت آگیں تو ہے ناکامیٔ منزل لیکن لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے کچھ نگاہوں سے غم دل کی خبر ملتی ہے ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے خواہش داد رسی کیا ہو ستمگر سے جہاں آنکھ میں شائبۂ ...

مزید پڑھیے

کھوئے ہوئے صحرا تک اے باد صبا جانا

کھوئے ہوئے صحرا تک اے باد صبا جانا وہ خاک جنوں میری آنکھوں سے لگا جانا اب تک کوئی چنگاری رہ رہ کے چمکتی ہے اے قافلۂ فردا یہ راکھ اڑا جانا ہے دشت تمنا میں اب شام کا سناٹا ہاں تیز قدم رکھتے اے اہل وفا جانا ہم نیند کی چادر میں لپٹے ہوئے چلتے ہیں اس بھیس میں اب ہم سے ملنا ہو تو آ ...

مزید پڑھیے

آخر وہ اضطراب کے دن بھی گزر گئے (ردیف .. ا)

آخر وہ اضطراب کے دن بھی گزر گئے جب دل حریف آتش قہر و عتاب تھا جاں دوستوں کی چارہ گری سے لبوں پہ تھی سر دشمنوں کی سنگ زنی سے عذاب تھا دامن سگان کوئے محبت سے تار تار چہرہ خراش دست جنوں سے خراب تھا واں اعتماد مشق سیاست کی حد نہ تھی یاں اعتبار‌ نالۂ دل بے حساب تھا ہر بات صوفیوں کی ...

مزید پڑھیے

یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے

یہ قدم قدم کشاکش دل بیقرار کیا ہے جو یقیں نہ ہو عمل پر تو نشاط کار کیا ہے بخدا نسیم گلشن تری وحشتوں کے صدقے یہ مزاج نامہ بر ہے تو مزاج یار کیا ہے وہ کرم نہ ہو ستم ہو کوئی بات کم سے کم ہو یہ ادائے بے نیازی مرے غم گسار کیا ہے یہ ہم اہل غم کی منزل ہے دبے قدم گزر جا کہ اجل یہاں کے فتنوں ...

مزید پڑھیے

قضا جو دے تو الٰہی ذرا بدل کے مجھے

قضا جو دے تو الٰہی ذرا بدل کے مجھے ملے یہ جام انہی انکھڑیوں میں ڈھل کے مجھے میں اپنے دل کے سمندر سے تشنہ کام آیا پکارتی رہیں موجیں اچھل اچھل کے مجھے نگاہ جس کے لیے بے قرار رہتی تھی سزا ملی ہے اسی روشنی سے جل کے مجھے میں رہزنوں کو کہیں اور دیکھتا ہی رہا کسی نے لوٹ لیا پاس سے نکل ...

مزید پڑھیے

بتوں کا ساتھ دیا بت شکن کا ساتھ دیا

بتوں کا ساتھ دیا بت شکن کا ساتھ دیا فریب عشق نے ہر حسن ظن کا ساتھ دیا مرے سکوت نے کب انجمن کا ساتھ دیا تمہاری چشم سخن در سخن کا ساتھ دیا تمہارے گیسوئے پر خم پہ مرنے والوں نے جب آیا وقت تو دار و رسن کا ساتھ دیا بہار آئی تو محروم‌ رنگ و بو ہیں وہی جنوں نے دور خزاں میں چمن کا ساتھ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 474 سے 6203