ماورا
راہ چلتے ہوئے اک موڑ پہ دور از امید آنکھ جھپکی تو مرے سامنے وہ شوخ پری پیکر تھا میرے پہلو سے وہ گزرا مگر اس طرح کہ چہرے پہ تھا ہاتھ ایک میٹھی سی خلش چھوڑ گئی دل میں یہ جاں سوز ادا ماورائی سایہ جلوہ جو گریزاں ہے مری نظروں سے میری بانہوں کی حرارت میں کبھی شمع کے مانند پگھل جاتا ...