قومی زبان

پچاسی سال نیچے گر گئے

ضعیفی کی شکن آلود چادر سے بدن ڈھانپے وہ اپنی نوجواں پوتی کے ساتھ آہستہ آہستہ سڑک کے ایک جانب چل رہا تھا گماں ہوتا تھا جیسے دھوپ کے کاندھے پہ چھاؤں ہاتھ رکھے چل رہی ہے چیختی ایڑیوں پر کڑکڑاتی ہڈیاں گاڑے ہوئے وہ جسم کا ملبہ اٹھائے جا رہا تھا اگرچہ پاؤں جنبش کر رہے تھے مگر بوڑھی کمر ...

مزید پڑھیے

شام کے دن رات

شام میں غار تھا غار میں رات تھی رات کے نم اندھیرے میں اک اجنبیت کا احساس تھا چلتی سانسوں کی ہلتی ہوئی سطح پر وقت کی ناؤ ٹھہری ہوئی تھی سنسناتے ہوئے نم اندھیرے میں پوریں دھڑکنے لگیں غار میں محو پرواز پلکوں کے پنچھی الجھنے لگے غار میں شام تھی چند لمحوں میں صدیاں بسر کر کے جب غار ...

مزید پڑھیے

خاکے

(سچے لوگوں کے نام) عجیب ماں ہو تم اپنے بچوں کو مارتی ہو تو اس خطا پر کہ وہ حکومت کی وحشتوں کے خلاف نکلے جلوس کے ساتھ جا رہے تھے تم اب پریشان ہو رہی ہو میں آنے والی گھڑی کے بارے میں سوچتا ہوں جب ایک موسم کئی کئی سال تک رہے گا تم اپنے ہاتھوں سے مرے شانے ہلا ہلا کر کہو گی باہر نکل کے ان ...

مزید پڑھیے

آباد ویرانیاں

وہ دستکیں جو تمہاری پوروں نے ان دروں میں انڈیل دی ہیں وہ آج بھی ان کے چوب ریشوں میں جاگتی ہیں تمہارے قدموں کی چاپ چپ ساعتوں میں بھی ایک ایک ذرے میں بولتی ہے تمہارے لہجے کے میٹھے گھاؤ سے آج بھی میرے گھر کا کڑیل چٹان سینہ چھنا ہوا ہے کوئی نہ جانے کہ ہنستے بستے گھروں کے اندر بھی گھر ...

مزید پڑھیے

فارغ

GABRIEL GARCIAMARCUEZ کے انداز میں) جب وہ پیدا ہوا تو اس کی دونوں آنکھیں دہک رہی تھیں دونوں پپوٹے پھٹے ہوئے تھے پتلی کی دیوار سے لٹکے آنکھوں کے پردے آگے سے ہٹے ہوئے تھے جب اس کی آنکھیں ہلتیں تو دیواروں پہ ان کی لو ہلنے لگتی تھی وہ پیدا ہونے سے پہلے سارے دھونے دھو آیا تھا اپنے جنم کا سارا ...

مزید پڑھیے

صفا مروہ

صفا مروہ صفا و مروہ کے درمیاں دوڑتی امنگو تمہیں خبر ہے تمہارے اجداد کے نقوش برہنہ پائی تمہارے قدموں کے نقش گر ہیں تم اپنے قدموں کی پیروی میں رواں دواں ہو خود اپنا عرفان ڈھونڈتے ہو ہجوم میں چل کے اپنی بقاء کا سامان ڈھونڈتے ہو دلوں کے اصنام ریزہ ریزہ تم اپنے قدموں پہ چل رہے ہو دلوں ...

مزید پڑھیے

پس دیوار زنداں

پس دیوار زنداں پس دیوار زنداں کون رہتا ہے ہمیں معلوم کیا ہم تو اسی اک آگہی کی آگ میں جلتے ہیں مرتے ہیں کہ دن کو رات کرتے ہیں کبھی اک روشنی تھی اور ستاروں کی چمک تھی تازگی تھی مگر اب باب زنداں وا نہیں ہوتا ہراساں شام کی تنہائیاں ہیں ہمیں اب کیا خبر کون رہتا ہے پس دیوار زنداں کون ...

مزید پڑھیے

خوف نامہ

ناف کٹتی ہے زخم جلتا ہے خوف دھڑکن کے ساتھ چلتا ہے ہر رگ جاں میں سرسراتا ہے سانس کے ساتھ آتا جاتا ہے کھال کو چھال سے ملاتی ہے سنسنی رونگٹے بناتی ہے طاق جاں میں چراغ رکھتا ہے خوف وحشت کا تیل چکھتا ہے سجدۂ غم میں گر گیا زاہد سرسراتی جبیں میں خوف لیے ہو گیا انگبین سے نمکین ذائقہ آستیں ...

مزید پڑھیے

ہم شاعر ہوتے ہیں

ہم پیدا کرتے ہیں ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں تو شکلیں بنتی ہیں ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں جو مٹی تھے وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں ہم شاعر ہوتے ہیں کنعان میں رہتے ہیں جب جلوہ کرتے ہیں تو ششدر انگشتوں کو پوریں نشتر دیتی ہیں پھر خون ٹپکتا ہے جو سرد ...

مزید پڑھیے

علاج بالمثل

نشتر زخم لگاتا ہے تو نشتر سے کھلواتا ہوں سلواتا ہوں پھنیر نیل اتارتا ہے تو منکے میں رسواتا ہوں کھنچواتا ہوں پانی میں گرمی گھولتا ہے تو پانی کا ٹھنڈا پیالہ منگواتا ہوں جب شب زندہ داری میں مے چڑھتی ہے تو صبح صبوحی کی سیڑھی لگواتا ہوں عورت چرکا دیتی ہے تو عورت کو بلواتا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 447 سے 6203