ادھر موسم کی یہ خوش اہتمامی
ادھر موسم کی یہ خوش اہتمامی
ادھر رندوں کی یہ حسرت بجامی
ہوائیں چل رہی ہیں سنسناتی
گھٹائیں اٹھ رہیں ہیں دھوم دھامی
یہ ہے عکس ہلال اے موج ساحل
کہ شمشیر بدن کی بے نیامی
پھڑکتا جا مثال بال جبریل
نہ چپ ہو اے دل اے میرے پیامی
کھلے ہیں پانچ در اک سمت دریا
نوشتے میں یہیں تھی ایک خامی
بہت ہے عرش پر دم بھر کا پھیرا
نہیں بھاتی ہمیں قید مقامی
نہیں ہے چشم فطرت میں کوئی پھول
زمیں کی کوکھ کا جایا حرامی
سنا دو ان کو یہ بھی قول حقیؔ
ابھی تک سوچ میں جن کی ہے خامی