عطا جو مجھ کو ذرا سا خضاب ہو جائے
عطا جو مجھ کو ذرا سا خضاب ہو جائے
پلٹ کے میری ضعیفی شباب ہو جائے
جو جنسیات شریک نصاب ہو جائے
ہر ایک بوائے فرینڈ کامیاب ہو جائے
خدا نخواستہ وہ بے نقاب ہو جائے
تو زندگانی ہماری عذاب ہو جائے
وہ مست خواب جو مست شراب ہو جائے
دعائے وصل مری مستجاب ہو جائے
عدو سے آپ ذرا سوچ کر ملا کیجئے
کہیں نہ جل کے مرا دل کباب ہو جائے
کرو نہ اتنا تکبر جمال پر اپنے
ملو گی ہاتھ جو رخصت شباب ہو جائے
جو ایک بار بھی تم خواب میں نظر آؤ
تمام عمر وہ محروم خواب ہو جائے
ملے گی سیٹ الیکشن میں آپ کو اک دن
اگر یہ چمچہ گری کامیاب ہو جائے
مچائے دھوم ہر اک محفل سخن میں رحیمؔ
کلام ایسا اگر دستیاب ہو جائے