قدم یوں بے خطر ہو کر نہ مے خانے میں رکھ دینا
قدم یوں بے خطر ہو کر نہ مے خانے میں رکھ دینا
بہت مشکل ہے جان و دل کو نذرانے میں رکھ دینا
سنا ہے حضرت واعظ ادھر تشریف لائیں گے
ذرا اس کاسۂ گردوں کو مے خانے میں رکھ دینا
بتوں کے دل میں یوں شاید خدا کا خوف پیدا ہو
یہ میرے دل کے ٹکڑے جا کے بت خانے میں رکھ دینا
یہاں اے دل فرشتوں کا بھی زہرہ آب ہوتا ہے
قدم آساں نہیں الفت کے ویرانے میں رکھ دینا
چلا ہے گھر کو دیوانہ اڑا کر خاک صحرا کی
غبار خاطر احباب کاشانے میں رکھ دینا
زیارت کو وہ دشت نجد کا جاں باز آئے گا
ذرا دم بھر کو میری نعش ویرانے میں رکھ دینا
بفیض حضرت ناصح ہوئی توفیق توبہ کی
مرا جام شکستہ ان کے شکرانے میں رکھ دینا
منافی تھا یہ اے منصور دستور امانت کے
کسی کی بات کو یوں اپنے بیگانے میں رکھ دینا
پلائی ہے جو واصفؔ کو مے مرد آزما ساقی
تو کچھ شان خودی بھی اپنے دیوانے میں رکھ دینا