وہ جلوہ طور پر جو دکھایا نہ جا سکا

وہ جلوہ طور پر جو دکھایا نہ جا سکا
آخر یہی ہوا کہ چھپایا نہ جا سکا


آتے ہی ان کے دشت و جبل مسکرا اٹھے
ایسے میں اپنا حال سنایا نہ جا سکا


گردوں بھی اضطراب عزیزاں سے ہل گیا
سوئے کچھ ایسے ہم کہ جگایا نہ جا سکا


دامن کے داغ اشک ندامت نے دھو دئیے
لیکن یہ دل کا داغ مٹایا نہ جا سکا


کتنی گھٹائیں آئیں برس کر گزر گئیں
شعلہ ہمارے دل کا بجھایا نہ جا سکا


باتیں ہزار یوں تو حریفوں کی چھپ گئیں
واصفؔ کا راز تھا جو چھپایا نہ جا سکا