بادشاہ

اور جب وہیل کا جثہ آخری مرتبہ سطح پر ابھرتا ہے تو ماہی گیر جان جاتے ہیں کہ وہ اب کبھی روپوش نہ ہو سکے گی۔ وہ ختم ہو چکی ہے اور وہ بوڑھی کشتی سے ٹیک لگا کر خون آلود ہتھیلیوں کو اطمینان سے پونچھتے ہیں اور اس کے سرخی سے لتھڑے سفید دھڑ پر ’’ہم جیت گئے‘‘ کی نظریں گاڑے سمندر میں سفر کا پہلا سگرٹ سلگا لیتے ہیں۔ وہ جان جاتے ہیں کہ وہیل اب عافیت کے پانیوں میں دوبارہ ڈبکی نہیں لگا سکتی۔ کیونکہ گوشت کے اس تیرتے ہوئے تودے کے گرد کا پانی پہلی مرتبہ ایک مخصوص رنگ کی سرخی میں رنگنے لگتا ہے۔ اس کے چاروں اور سمندر رُت سے بھر جاتا ہے اور وہ جان جاتے ہیں کہ سرخ پھول کھل رہا ہے اور جب سرخ پھول کھل جائے تو وہیل زندہ نہیں رہ سکتی۔ سانس کے پانی کا وہ فوراہ جو سمندر میں سے ایک آبی انار کی طرح پھنکارتا ہوا چھوٹتا تھا اب صرف سطح پر ایک سست چشمے کی طرح ابلنے کی کوشش کرتا ہے مگر فوراً ہموار ہو کر مر جاتا ہے۔ وہیل سرخ پھول کے درمیان گھر کر مرجھاتی ہے اور مر جاتی ہے۔

سانپوں کی طرح شُو کتے سمندر میں ایک چھوٹی سی کشتی اتنی حقیر، اتنی معمولی کہ ہونے اور نہ ہونے میں سے نہ ہونے کی طرف مائل۔ کشتی میں چند دبلے پتلے جسم اور ان کے چنڈیوں سے بھرے محنتی ہاتھ اور ان کے سامنے ایک وسیع چٹان، اتنی بڑی کہ سمندر کی جسامت کو بھی مختصر کرتی ہوئی مگر حرکت میں اور تباہی کی پھنکار لیے کشتیوں کو ویران کر دینے کی قوت کے ساتھ۔ وہ اپنی مہین آنکھوں سے دیکھتی ہے اس نقطے کو جو کہ کشتی ہے۔ اس کے ساتھ مقابلے کی سعی میں ہے اور اسے نیست و نابود کرنے کے لیے آگے بڑھتی ہے۔

پہلا بھالا اس کے جسم میں صرف چبھتا ہے اور وہ ایک لاپروا کروٹ بدل کر اسے جھنجھوڑ دیتی ہے۔ دوسرا نیزہ کچھ دیر تک پیوست رہتا ہے اور اسے قدرے جھنجھلاتا ہے۔ تیسرا وار اس کے شفاف بدن میں چھلتا ہوا زخم ڈال دیتا ہے۔ چوتھا نیزہ اسی زخم میں سے خون کے پہلے قطرے کرید نکالتا ہے اور پھر ایک ایسا بھالا وہیل کے بدن میں کھبتا ہے جو چھوٹا ہونے کے باوجود انسانی بازوؤں کی طاقت میں نہا کر نکلتا ہےاور اس کے کروٹیں بدلنے، زیر آب جانے اور پھنکارنے کے باوجود علیحدہ نہیں ہوتا۔ جسم سے خون کا، اس کی زندگی کا خراج وصول کرتا چلا جاتا ہے۔ ادھر بھالے کے ساتھ بندھی ڈور وہیل کے وحشی سفر کو ناپ رہی ہے کہ وہ محنتی ہتھیلیوں میں چنگاریاں بھرتی، ان پر خونی راستے بناتی نکلتی جا رہی ہے۔ ماہی گیر اپنی خون سے رستی مٹھیاں اذیت کی شدت سے کھولتے نہیں، مضبوطی سے بند رکھتے ہیں۔ ڈور کو چھوڑتے نہیں کہ محنتی ہتھیلیاں بند مٹھیوں میں بدل جائیں تو پھر کبھی نہیں کھلتیں۔

وہیل زیر آب جاتی ہے موت سے خائف ہو کر، مہیب پانیوں میں روپوش ہو جانا چاہتی ہے مگر اسے سانس لینے کے لیے کبھی نہ کبھی سطح پر آنا ہی پڑتا ہے اور سطح پر ایک آخری نیزہ اس کا منتظر ہوتا ہے اور آخری نیزہ اپنی لشکتی ناک اس کےجسم میں گاڑ دیتا ہے۔ وہیل کا جثہ آخری مرتبہ سطح پر ابھر چکا ہے اور گہرے پانیوں کو بھی خبر ہو جاتی ہے کہ اب وہ ہمیشہ خالی رہیں گے اور اس کے گرد کا پانی پہلی مرتبہ ایک مخصوص رنگ کی سرخی میں رنگنے لگتا ہے اور اس غروب کو ماہی گیر سرخ پھول کہتے ہیں اور وہ اپنی بوڑھی کشتی سے ٹیک لگا کر خون آلود محنتی ہتھیلیوں کو اطمینان سے پونچھتے ہیں اور اس کے سرخی سے لتھڑے سفید دھڑ پر ’’ہم جیت گئے‘‘ کی نظریں گاڑے سمندر میں سفر کا پہلا سگریٹ سلگا لیتے ہیں۔

بس نمبر ۱۷ کی کھڑکی سے باہر دائیں ہاتھ پر سمندر بے شرمی کی حد تک ٹانگیں پھیلائے سپاٹ لیٹا تھا اور رات کی سیاہ شہوت اس پر جھکی ہوئی تھی۔ سمندر کے اطمینان کے نیچے بے شمار وہیل مچھلیاں پوشیدہ تھیں۔ سہمی ہوئی، سرخ پھولوں سے خائف۔ اس کی سیاہ چادر پر اب تک کتنے سرخ پھول کھل چکے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انہیں کھلانے کے لیے اپنی ہتھیلیاں زخمی کیں اور پھر سیاہ چادر پر سرخ دھبے کیسے نظر آئیں۔ مگر ایک روز جب پورے سمندر پر گل لالہ کی فصل مکمل ہوگی تو ماہی گیر اپنی اپنی کشتیوں میں سوار بے خطر اس میں اتر جائیں گے۔

’’ٹن!‘‘ میٹھی روئی بیچنے والے نے ٹین پر سوٹی مار کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا اور اس کی باچھوں کے سکڑنے پر جھکا جھکا پاس چلا آیا۔ ’’سنیور‘‘ اس نے سرکنڈے پر لپٹی گلابی روئی آگے کردی۔ پانچ پسیتے ادا کر کے اس نے روئی کی نرمی کو اپنی ناک سے چھوا اور منہ چلانے لگا۔

’’اس وقت بگلے نہیں ہوتے سمندر پر؟‘‘

’’نہیں ہوتے۔‘‘ روئی سے بھرے ٹین پر سوٹی سے ایک اور ضرب لگا کر وہ اپنی نشست پر جا بیٹھا۔

بس دو بجے دوپہر غرناطہ سے روانہ ہوئی تھی۔ ایلشے کے کھجوروں کے باغوں اور مُرسیہ کے چٹیل میدانوں میں اپنا بدبودار دھواں چھوڑتی اب بحیرۂ روم کے ساحل کے ساتھ ساتھ تاریکی میں علی کانت کی سمت میں بڑھ رہی تھی۔ ڈرائیور کی نشست کے عین اوپر ایک ننھا سا بلب اور بقیہ بس اندھیرے میں ڈول رہی تھی۔ مسافروں کےڈھلکے ہوئے سر اور ٹوٹتے بدن سو رہے تھے۔ صرف میٹھی روئی بیچنے والا پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اس کے گنجے سر کے گرد بادلوں کے گچھے لٹک رہے تھے جیسے اون کی ٹی کوزی میں ابلا ہوا انڈا رکھا ہوتا ہے۔ مسکراہٹ ایک مردہ مینڈک کے کھلے ہوئے منہ کی طرح تھی۔ چہرہ ایک ایسے بچے سے مشابہ تھا جو دنوں میں برسوں کی جھریاں طے کر کے بوڑھا ہو جاتا ہے۔ کوئی مسافر پہلو بدلتا یا پل بھر کے لیے آنکھیں کھولتا تو وہ فوراً سوٹی سے ٹین کھڑکا کر روئی کا گولا ہاتھ میں لیے جھکا جھکا اس کے پاس پہنچ جاتا، ’’سنیور!‘‘

نصب شب سے پرے وہ علی کانت کی روشنیوں میں داخل ہوئے۔ نیون سائن اور سٹریٹ لائٹس کے رنگ بس کے تاریک پیٹ میں بھڑکنے بجھنے لگے۔ مختلف رنگوں کے بے آواز پٹاخے مسافروں کے تھکے ہوئے چہروں پر پھٹتے رہے۔ ایک ویران اڈے کے اندر گھستے ہی بس نے ایک ہچکی لی اور خاموش ہوگئی۔ میٹھی روئی بیچنے والے بوڑھے بچے نے ٹین کو آخری مرتبہ کھڑکایا اور اپنی مینڈک مسکراہٹ سمیت پاؤں پسار کر ایک نشست پر سو گیا۔ مسافروں کی اکثریت نے بھی بس سے اترنے کا تردد نہ کیا بلکہ پہلو بدل کر پہلے کی نسبت زیادہ پرسکون ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔

وہ اندلس کے ان اجڑتے ہوئے قصبوں سے آئے تھے جہاں تمام تر قابل کاشت اراضی کسی ڈیوک یا ڈچس کی ذاتی ملکیت ہوتی ہے۔ ان شخصی ریاستوں میں گناہ بھی وہی کرتے ہیں اور ان کا ثواب بھی لیتے ہیں۔ دہقان صرف زمین پر مشقت کرنے کا گناہ کرتے ہیں اور ظاہر ہے ایسے گناہ کا ثواب نہیں ہوتا۔ چنانچہ موسم گرما میں وہ ایک ٹڈی دل کی صورت اس شہر سمندر پر یلغار کر دیتے ہیں اور غیر ملکی سیاحوں کے بوٹ پالش کر کے، انہیں گتاروں پر اندلسی لوک گیت سنا کر، روٹی اور پیاز کا بندوبست کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ آج کی شب اسی بس میں گزار کر وہ اگلی صبح علی کانت کے شفاف شہر میں مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگیں گے۔

اس نے اپنے سفری تھیلے کو ایک مردہ کتے کی طرح بس کے دروازے تک گھسیٹا اور پھر جیسے ایک نقلی عضو کو جسم پر باندھتے ہیں اسے کندھوں پر سڑیپ سے جکڑ کر اڈے سے باہر آگیا۔ علی کانت کا ہالیڈے ریسارٹ رات کے اس پہر بھی زندہ تھا۔ ساحلی سڑک کے دونوں طرف پام کے درختوں کا ایک سلسلہ تھا جن کے درمیان میں کسی نودولتیے کی کوٹھی کے رنگ برنگے چپس کے فرشوں کی مانند لہریے سے بنے ہوئے تھے۔ ان پر روشنیوں کا چکاچوند عکس تھا۔ مُورش حصار کے دامن میں لوگ ابھی تک سفید سوٹوں اور بھڑ کیلے گاؤنوں میں ملبوس شراب پی رہے تھے۔ ریستورانوں سے باہر سفید آہنی جنگلوں پر مکھیوں کی طرح چمٹے اندلسی اور قشتالوی دہقان تھے۔ پچکے ہوئے پیٹ اور غربتی رنگ کے چہرے شراب نوشوں پر لالچی نظریں بچھائے ان کے لباس اور سامنے رکھے مشروب کے بارے میں بھنبھناتے ہوئے سرگوشیاں کر رہےتھے۔

سفید آہنی چار دیواری جسے پھاند کر وہ اندر نہیں جا سکتے تھے، اور اس چاردیواری میں بیٹھے بے فکرے جن کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس کے پار پچکے ہوئے پیٹ ہیں۔ غربتی رنگ ہیں۔ علی کانت کے پرپیچ بالکونیوں اور سفید پینٹ کیے ہوئے فائیوسٹار ہوٹل ساحلی سڑک کے ساتھ ساتھ وہیل مچھلیوں کی طرح ابھرے ہوئے، ان کے بدن میں سے امارت کے بلند فوارے سانس کی مانند ابل رہے تھے۔ پرومی نیڈ کے سرے پر دوسرے درجے کے ہوٹلوں کا سلسلہ تھا اور آخر میں جہاں ساحلی سڑک کی آخری تیز روشنی تھی وہاں تیسرے درجے کے مسافرخانے اپنی حیثیت کے مطابق کندھے جھکائے کھڑے تھے اور ان ہوٹلوں کے پیچھے اور دائیں اور بائیں ہاتھ پر علی کانت کا پرانا قصبہ تھا سرخ چھتوں والا۔ ہوٹلوں کی سفید عمارتیں تین اطراف سے سرخ چھتوں میں گھری ہوئی تھیں۔ صرف ایک جانب فرار کا راستہ تھا، سمندر کی جانب۔۔۔ مگر سمندر میں تو گل لالہ کی فصل مکمل ہونے کو تھی۔

ہڈیوں کو سفر کی رکی رکی حرکت ابھی تک کچوکے دے رہی تھی اور بقیہ جسم کو تھکن کی ایک بڑی مٹھی برابر بھینچے جا رہی تھی۔ وہ قدموں کو گھسیٹتا چلتا رہا کہ کیمپنگ سائٹ شہر سے تین کلومیٹر باہر واقع تھی۔ جیسے ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں دستور تھا کہ غلاموں کی بستی ہمیشہ شہر سے دور تعمیر کی جاتی تھی۔ اسی طور آج کے سیاحتی شہروں میں بھی کم حیثیت لوگوں کے لیے کیمپنگ کی جگہ شہر سے پرے ایک محفوظ فاصلے پر بنائی جاتی ہے۔

علی کانت کا سرخ کھپریل سے ڈھکا آخری گھر اس کے عقب میں چلا گیا۔ اب وہاں کبڑی پہاڑیوں کا سلسلہ تھا جن پر اکا دکا ولاز کے مورش باغوں میں مدھم روشنیاں نمائشی پلکوں کی طرح چھپک چھپک کر دِکھ رہی تھیں۔ دائیں ہاتھ پر سمندر ابھی تک ساتھ دے رہا تھا۔ ہرا سمندر، گوپی چندر، بول میری مچھلی کتنا پانی؟ بول میری وہیل مچھلی۔ تھکے ہوئے پاؤں سڑک پر پڑتے تو انہیں لگتا جیسے کوئی پیچھے سے سڑک کا فیتہ ان کے نیچے سے کھسکاتا چلا جا رہا ہے اور وہ کہیں نہیں جا رہے، ایک ہی جگہ حرکت میں ہیں۔ تین کلومیٹر انتہائی طویل تو نہیں ہوتے مگر ہ وگئے، اور جب بالآخر ختم ہوئے تو وہ ایک بند پھاٹک کے سامنے کھڑا تھا جس پر اندھیرے میں دمکنے والی گلابی روشنائی سے ’’علی کانت کیمپنگ‘‘ تحریر تھا۔ گھر دیر سے لوٹنے والے بچے کی طرح اس نے پہلے تو ہولے ہولے ہتھیلی کو تختے پر بجایا اور جب اس کا خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا تو بے خوف ہو کر دھڑدھڑ اسے کوٹنے لگا۔ ایک طویل وقفے کے بعد کوئی نسوانی آواز تلخی سے بڑبڑاتی قریب آتی گئی اور پھاٹک کا ایک پٹ آہستہ سے وا ہونے لگا۔ چھوٹے سے چوہے سر اور وسیع تن و توش کی ایک عورت آنکھیں ملتی ہوئی اس کے سامنے آگئی۔

’’بارہ بجے کے بعد کیمپنگ میں داخلہ ممنوع ہے لیکن اب تم آگئے ہو تو آجاؤ۔‘‘

’’بس دم لینا چاہتا ہوں اور پھر اپنی راہ لوں گا۔‘‘

لیکن وہ سن نہیں رہی تھی۔ بس تیزی سے چلتی جارہی تھی۔ نسل انسانی کے مانند مختلف قد کاٹھ کے خیمے، سفید کارواں اور ٹورسٹ ویگنیں۔۔۔ چاروں طرف اک شہر خوابیدہ تھا۔ ایک مقام پر تاریکی مزید گہری ہوئی تو چوکیدار عورت رک گئی۔ ’’فی الحال خیمہ یہیں نصب کر لو، صبح ہوگی تو اپنی من مرضی سے جہاں جی چاہے شفٹ کر لینا۔‘‘

’’اور پاسپورٹ۔۔۔‘‘ اس کی آواز نے تاریکی میں گم ہوتی چوکیدار کا پیچھا کیا۔

’’صبح۔۔۔‘‘ اندھیرے کے گھونگٹ میں سے آخری جواب آیا۔

ایک ناتجربہ کار کے لیے اتنے گاڑھے اندھیرے میں خیمہ نصب کرنا ایک بےسود کوشش ہوتی۔ مگر اس کے ہاتھوں کو معلوم تھا کہ خیمے کے کن سوراخوں میں اگر لوہے کا ڈنڈا پرو دیا جائے تو وہ ایک پھولے ہوئے بلاؤز کی طرح تن جاتا ہے۔ کون سی میخ کہاں گاڑی جانی ہے، ایک بوڑھے جلاد کی طرح جو گئی رات کسی مجرم کے پاؤں، ہتھیلیوں اور گردن میں میخیں ٹھونک کر اسے مصلوب کرتا ہے۔ اس نےخیمے کو نصب کرنا شروع کردیا۔ کوئی بھی عمل جب ٹرائل اینڈ ایرر کے مرحلے سے گزر کر ٹھوس تجربے کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو پھر گاڑھے اندھیرے میں بھی اسے کمال خوش اسلوبی سے سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ خیمے کےعارضی گھر نے شکل اختیار کی تو اس نے پردہ اٹھایا، ’’میرا گھر‘‘

’’تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘

’’فی الحال یہی ہے۔‘‘

’’نہیں فی الحال کی شرط ناواجب ہے، گھر کہاں ہے؟‘‘

تم شاہ زمان! تمہارا گھر کہاں ہے؟ بریڈ فورڈ کا شہر جو صرف جغرافیائی لحاظ سے ولایت میں واقع ہے یا شاہدرے کی کچی آبادی۔ جب وطن چھوڑا تھا تو تم ایک معصوم، معمولی پڑھے لکھے اور قدرے بیوقوف سے نوجوان تھے، جو زیر زمین چلنے والی ریل گاڑی میں سوار لڑکیوں کے بھرے بھرے بلاؤزوں میں گم ہوتی ہوئی لکیروں کو دیکھ کر ہی چہرہ سرخ کرلیتا تھا، اور جواب تاریکی میں بھی اپنی میخ نشانے پر گاڑ سکتا تھا چاہے زمین سخت ہو یا کیچڑ آلود۔ لیکن ٹامک ٹوئیاں مارنے اور ٹھوس میخی تجربے کے درمیان دس برس کا عرصہ تھا۔ تم صرف اس لیے ولایت گئے تھے کہ وہاں مزدوری کر کے اپنے کچے کوٹھے کو اینٹوں کے چبارے میں بدل دو اور بوڑھی ماں کو سہارا دینے کے لیے ایک رکشا خرید لو۔ ان میں سے کوئی کام بھی نہ ہوا اور دس برس بیت گئے۔ ماں نے آخری خط میں لکھا تھا، ’’بیٹا اب تو واپس آجاؤ۔ یونس کریا نے والا اپنے ادھار کا تقاضہ بھی نہیں کرتا بلکہ اپنی بیٹی کے لیے رشتے کا خواہش مند ہے۔ اب تمہیں نہانے کے لئے مسیت میں بھی نہیں جانا پڑے گا۔ ہم نے گھر میں کمیٹی کا نلکا لگوا لیا ہے۔‘‘

لیکن اس نلکے میں سے تو پانی نکلتا تھا، بیئر نہیں۔ اور تم تو ہر شام برٹینیا بار کی سٹرانگ بیئر کے چھ مگ انڈیلنے کے بعد کسی گوری طوائف کو بازو میں ڈال کر اپنے کمرے میں جانے کے عادی ہو چکے ہو۔ تمہارے لیے یہ عمل عیاشی نہیں معمول بن چکا ہے۔ تم معمول کے مجبور ہو، واپس کہاں جاؤگے؟ فیکٹری میں سالانہ چھٹیوں کے موقع پر اگر تم ہسپانیہ میں آنکلے ہو تو مقصد تاریخی مقامات میں نہیں بدنی مقامات میں گم ہونا ہے۔ ادھر سوئیکا ملتی ہے۔ سویڈش لڑکی جو ساحلی علاقوں میں صرف سن اینڈ سینڈ کی تلاش میں نہیں آتی بلکہ ایک تیسرا ”S“ نظریۂ ضرورت کے تحت اس کے بدن پر حاوی ہوتا ہے اور وہ ہے سیکس۔ تم تو اندھیرے میں بھی خیمہ گاڑ لیتے ہو۔

بو۔۔۔ بو ہے یا میری تھکاوٹوں کا پسینہ۔۔۔ نہیں بو تھی اور پھر رونے کی آوازیں۔۔۔ کیا سچ مچ کوئی رو رہا ہے، بین کر رہا ہے۔ نہیں بلیا ں میاک رہی تھیں، غرا رہی تھیں۔ اس بو اورغراہٹ میں ایک حیوانی آواز شامل تھی جو دبے دبے ان سے باتیں کر رہی تھی۔ روتی، بین کرتی بلیاں۔۔۔ میرے بدن پر ان کے کھڑے ہوئے بالوں کی جھالر ایک پنکھیا کی صورت چل رہی ہے اور میرے ہر موسے، روم روم، لوں لوں سے دہشت پھوٹ رہی ہے، بلیوں کا ایک آرکسٹرا ہے جو کمانڈر پرفارمنس کے لیے ریہرسل کر رہا ہے۔ اور ان کے درمیان وہی حیوانی آواز جو وقفوں سےابلتی ہے اور اس کا لاوا لمحہ بھر کے لیے ان کچکچاتی غراہٹوں کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔۔۔ بو مچھلی کی تھی مگر اس میں سڑاند تھی۔ جیسے جنگلی سؤر کے گوشت کو فرائنگ پین میں ڈالا جائے تو یک دم بھبکا اٹھتا ہے۔ میری ناک اس بو سے ناآشنا ہے مگر ہے یہ مچھلی کی۔ اتنی تیز کہ شاید میں سڑی ہوئی مچھلیوں کے ڈھیر پر سویا ہوا ہوں۔

دو مرتبہ زمان نے اپنے خیمے کی زِپ کو ٹٹولا اپنے اطمینان کے لیے، مگر وہ کسی ٹھوس جسم پر کسی ہوئی زپ کی طرح مضبوط تھی۔ صبح کی خنکی جب خیمے کے کپڑے میں سے سرایت کر کے اس تک پہنچی تو یک دم نیند دبے پاؤں بدن کے بستر پر دراز ہوگئی۔

’’اوہ میگی، اتنی دیر سے تلاش کر رہی ہوں ڈیم یو۔ کہاں دفع ہوگئی تھیں؟‘‘

’’کسی اور خیمے میں نہ تھی لیزا، سمندر میں تھی۔‘‘

’’سمندر میں؟ تمہاری بکینی تو میرے سیک میں پڑی ہے بالکل سوکھی۔۔۔‘‘

’’اوہ لیزا ڈیئر، اتنے خوشگوار پانی میں صبح سویرے کچھ پہن کر نہایا جاتا ہے سٹوپڈ؟‘‘ سٹوپڈ نے بھی جواب میں کچھ کہا اور جو زمان تک نہ پہنچ سکا۔

’’ہیلڑڈ۔۔۔ بچوں کے ناشتہ تیار کر دو، ورنہ وہ اپنی رنگین بالٹیاں اور گیند اٹھا کر ساحل کی طرف بھاگ جائیں گے۔‘‘

’’سال بھر میں دو ہفتے کی چھٹیاں اور ان میں بھی مجھے ایک غلام کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔ میں کہتی تھی ناں اس مرتبہ کسی ہوٹل میں ٹھہریں۔ کیمپنگ کی بجائے میں اگر کسی کانسنٹریشن کیمپ میں چلی جاتی تو شاید زیادہ آرام نصیب ہوتا۔۔۔ ہونہہ ناشتہ۔۔۔‘‘

’’اس امریکی فیملی کی طرف دیکھو جو اپنے کارواں کے سامنے سلاخوں پر گوشت بھون رہے ہیں۔۔۔ کیا خیال ہے ماریا؟ اگر ہم قریب جا کر کھڑے ہو جائیں تو شاید آفر کر دیں۔‘‘

’’مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔ حشیش تو ملتی نہیں یہاں۔۔۔ ڈارلنگ مراکو چلیں۔‘‘

’’فرٹز ڈیئر۔۔۔ آج کہاں چلیں؟‘‘

’’آرام سے بیٹھے رہو۔۔۔ میں بتا دوں گا جب موڈ بنا۔‘‘

’’بہت بہتر فرٹز۔۔۔ میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔ رات نیند کیسی آئی؟‘‘

’’بکواس بند کرو شوائن۔۔۔ تم نے سونے دیا؟‘‘

زمان دیر تک سوتا رہا تھا۔ اس کے اوپر خیمے کا ہلکا سبز کپڑا ہسپانیہ کی کڑی دھوپ کی شعاعیں جذب کر رہا تھا اور نیم روشن تھا، جیسے لیمپ شیڈ کا باہر کا حصہ۔ باہر کیمپنگ کا شہر بیدار ہو چکا تھا اور یورپ کی مختلف زبانیں گھلتی ملتی فضا میں پھیل رہی تھیں، اس تک پہنچ رہی تھیں۔ خیمے میں کھڑے ہونے کو تو جگہ نہ تھی، چنانچہ زمان نےکسی جاپانی پہلوان کی طرح لیٹے لیٹے ٹانگیں چلا کر کپڑے بدلے اور پردہ اٹھا کر باہر آگیا۔

اس کا چہرہ اور نصف آستین میں سے نکلتے ہوئے بازو ایک بوڑھے سانپ کی سکڑتی اور سلوٹوں سے بھر پور کینچلی کی طرح کھردرے اور بے جان تھے۔ جلد پر مردہ مچھلی کے چانوں ایسے کھرینڈ ابھرے ہوئے تھے۔ ایک مست الست سادھو کی طرح سر جھکائے وہ گود میں پڑے اخبار کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ اس کے پھٹے ہوئے فلیٹ بوٹوں کے گرد بلیوں کا ایک غول تھا۔ کچھ صبح کی دھوپ میں مزے لینے کے لیے اکڑتی ہوئیں اور بار بار مونچھوں والے منہ کھول کر جماہیاں لیتی ہوئیں اور بیشتر بے حد کاہلی کے ساتھ اس کی کرسی کے گرد گھومتی ہوئیں۔ وہ ایک غیرمرئی دائرے میں چل رہی تھیں جس کا مرکز وہ شخص تھا۔ بے جان کینچلی کے جسم والا بوڑھا۔ اس کےعقب میں ایک بہت بڑا خیمہ تھا جیسے میدانِ جنگ میں یورپی نائٹس کے ہوا کرتے تھے مگر فقیر کی گدڑی کی طرح رنگ برنگے بوسیدہ پیوندوں سے چپکا ہوا۔

پیوندوں کی وضع قطع سےمعلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک زمانےمیں بوڑھے کے بدن کو بھی ڈھانپتے تھے۔ لگتا تھا کہ پیدائش سے لے کر اب تک کی اترن سے اس نے اپنا یہ گھر بنایا ہے۔ خیمے کے دونوں طرف ٹین کے بنے ہوئے متعدد بڑے بڑے ڈبے تھے جن پر مکھیوں کا ایک ٹڈی دل منڈلا رہا تھا۔ وہ قطاروں کی صورت میں ڈبوں میں داخل ہو رہی تھیں جن کے نچلے حصوں کےساتھ ٹاٹ کے تھیلے مضبوطی سے بندھے ہوئے تھے۔ کچھ کچھ آٹا پیسنے والی چکی کے نیچے بندھی بوریوں کی طرح۔ یہ تھیلے آہستہ آہستہ حرکت بھی کرتے تھے کہ مکھیوں کی منزل یہی تھی اور پھر وہ مخصوص بو بھی کہیں آس پاس تھی۔ سڑی ہوئی مچھلی کی بو۔ کبھی کبھار کوئی بلی الٹے پاؤں چلتی اپنی پشت بوڑھے کے فلیٹ بوٹ پر جمادیتی تو وہ بڑی وحشت سے اسے فٹ بال کی طرح ہوامیں اچھال دیتا۔ بلی زمین پر گرتے ہی اسی سستی کے ساتھ دھوپ سینکنے لگتی۔

زمان کو دیکھ کر بوڑھے نے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھوں پر بھی شاید جھریاں تھیں اور ان کے گرد کوے کے پنجوں ایسے سیاہ حلقے چمٹے ہوئے تھے۔ زمان کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے پھیلے تو بوڑھے نے سر جھکا لیا اور اخبار کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ ایک بلی اس کے فلیٹ بوٹ پر بیٹھ گئی مگر اسے اس نے ہوا میں نہیں اچھالا، بیٹھا رہنے دیا۔

زمان کے چاروں اور لاتعداد خیمے پھیلے ہوئے تھے۔ جڑواں بچوں کی طرح ایک دوسرے سے پیوست۔ صرف بوڑھے کا خیمہ ان سب سے الگ ایک ایسے ٹیلے پر ایستادہ تھا جہاں سے سمندر کا پورا وجود امڈا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس ٹیلے پر اور کوئی خیمہ نہ تھا سوائے زمان کے جو ایک سہمے ہوئے کبوتر کی طرح اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ وہ ساحل کی جانب اترا تو مختلف خیموں کے باہر بیٹھے ہوئے لوگ اسے دیکھ کر حسب مقدور ہاتھ ہلاتے، ہیلو کہتے یا پھر ایک نگاہ ڈال کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔ اور کام کیا تھے۔ کافی کی تیاری، نچڑتے ہوئے نہانے کے لباس سکھانا یا دھوپ سینکنا، یہاں میگی اور اس کی سہیلی کا خیمہ بھی تھا جو اسے علی الصبح سمندر میں صرف پیدائشی لباس میں نہانے پر سرزنش کر چکی تھی۔

وہ جرمن خاندان بھی تھا جس کی خاتون خانہ پانچ بچوں کا ناشتہ بناتے بناتے نڈھال ہو رہی تھی۔ ہپی جوڑا ابھی تک امریکی فیملی کے قریب اس امید پر کھڑا تھا کہ انہیں وہاں سے کچھ کھانے کو مل جائے گا اور وہ جرمن نوجوان بھی جن میں سے ایک اپنے دوست کےسامنے اتنا دب کر، اتنا مؤدب ہوکر بات کرتا تھا جیسے وہ ابھی اسے خلعت سے نوازنے کو ہے۔ ساحل پر حسب توقع بچے تھے ریت کے قلعے تعمیر کرتے ہوئے، اور لڑکیاں تھیں اوندھی لیٹی ہوئی۔ بکینیوں کے بالائی حصے کی گرہ کھولے ہوئے اور نچلے حصے کو بچوں ایسی لکیر کے آغاز تک کھسکائے ہوئے۔ اور جوڑے تھے بیزاری کے اس رشتے میں بندھے ہوئے جسے شادی کہتے ہیں۔ اکا دکا بوڑھے تھے اور علی کانت کا شہر تھا۔ پچھلی شب کا بھڑکتا ہوا روشن علی کانت جو ساحل کے ساتھ ایک مردہ وہیل مچھلی کی طرح پڑا ہوا تھا۔

اور سمندر تھا۔۔۔ ایک نیلا ریگستان جو بے آب و گیاہ اور خاموش تھا۔ بظاہر۔۔۔ مگر اس کے اندر۔۔۔ سطح سےنیچے۔۔۔ اس کے بڑے پیٹ میں وہیل مچھلیاں چابی دار کھلونوں کی طرح تیر رہی تھیں۔ شاید انہوں نے سطح آب پر آکر سانس لینا چھوڑ دیا تھا کہ وہ خائف تھیں اس چھوٹی سی کشتی سے جس میں کھردری انگلیوں والے ہاتھ نیزے تھامے ان کے منتظر تھے۔ ان کا خوف بے وجہ تھا۔ اس وقت سمندر پر کہیں بھی وہ کشتی نہ تھی۔۔۔ مگر جانے کب نمودار ہو جائے۔

اور سمندر تھا۔۔۔ اور سمندر کے اوپر آسمان میں ایک جہازی سائز کی پتنگ معلق تھی جیسے وہاں چپک گئی ہو۔ البتہ اس کی طویل جھالردار دُم کسی جاپانی مرغ کی دم کی طرح فضا میں لہریے سے لے رہی تھی۔ اسے کون اڑا رہا تھا؟ اس کی بلندی سے اندازہ ہوتا تھا کہ ڈور زمین پر کھڑے کسی انسان کے ہاتھ میں تو نہ تھی۔ ساحل کے عین اوپر لگژری فلیٹوں کی بلند عمارت پر شاید۔۔۔ کاش اس کی ڈور ٹوٹ جائے، یہ بَو ہو جائے اور میں اسے لوٹ لوں۔ بفرض محال اگر ایسا بھی ہو جائے تو یہ خوبصورت پتنگ سمندر میں گرے گی اور سمندر پرخطر تھا۔ اس میں وہیل مچھلیاں تھیں۔ اسے لوٹنے کے لیے مجھے ایک چھوٹی سی کشتی درکار ہوگی۔۔۔ اور ابھی شاید اس کا وقت نہ تھا۔

میرا بدن خون میں خون کی گردش اور خمارکی آسودگی کے ترازو پر ہمیشہ سے جھولتا رہا تھا۔ یہ ہاتھ، یہ انگلیاں ایک کمہارکی طرح ہر قسم کی مٹی کو ڈھالنے، اس میں حدت پیدا کر کے اسے گیلی کرنے کے عمل سے آشنا نہ تھے، ماہر تھے۔ لذت کے تمام عمل روٹین کے پہئے پر بندھے ایک معمول ہو چکے تھے۔ مگر ایک ایسی لذت بھی تھی کہ جس کے لیے خواہش ابھی باقی تھی۔۔۔ بہت سے برس گزرے۔ بسنت کی شام کے دھندلکے میں، میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیم تاریک آسمان پر اُن پتنگوں کے سائے ڈھونڈ رہا تھا، جو شہر سے باہر کے باغوں پر کٹ کر اب ہیولوں کی طرح میرے اوپر سے گزر رہی تھیں اور ان کی ڈوریں میری پہنچ سے باہر کہیں فضا میں لٹکتی لٹکتی چلی جا رہی تھیں۔ میں اپنے کچے کوٹھے سے نیچے اترنے کو تھا کہ ایک دم میرے کان پر جیسے ایک نامعلوم آری سی چل گئی ہو، جیسے شہد کی مکھی بھنبھنا رہی ہو، میں نے وحشت میں کان پر ہاتھ مارا تو وہ آری میری ننھی ننھی انگلیوں کے درمیان چلنے لگی۔ میں نے فوراً مٹھی بھینچ لی۔ چند لمحوں کے لیے ڈور ایک مردہ کینچوے کی طرح بے حرکت پڑی رہی۔ پھر دھیرے دھیرے جیسے کسی لان میں پڑی ربڑ کی نالی میں پانی بھرتا ہے، وہ تنتی گئی۔

پتنگ نہ جانے کتنی دور تھی۔ کہاں تھی اور آسمان تاریک تھا۔ میری کمزور مٹھیاں تنی ہوئی ڈور کو اپنی تمام تر قوت سے تھامے ہوئے تھیں مگر وہ آہستہ آہستہ کھسک رہی تھی اور اس پر ابھرا ہوا تیز مانجھا میری ہتھیلی پر ایک خون آلود راستہ بنا رہا تھا۔ زخموں کی اذیت کے باوجود میں اسے کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور پھر آسمان کے اس حصے میں جہاں میری نادیدہ محبوبہ ہلکورے لے رہی تھی، ہوا کا زور بڑھا اور ڈور میری ناتواں مٹھی میں سے اس تیزی سے نکلی کہ کچے کوٹھے کی کچی مٹی پر گرمیوں کی دھوپوں کے باوجود کئی روز تک بھورے نشان دکھائی دیتے رہے۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور مٹھی خون آلود مگر بند۔ وہیل جب تاریک سمندر میں ڈبکی مار جاتی ہے تو ماہی گیروں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اس پر کھبے ہوئے نیزے سے بندھی ڈور ان کی ہتھیلیوں کو لہولہان کرتی پھسلتی جاتی ہے، وہ اسے چھوڑتے نہیں، مگر میں نے اسے چھوڑ دیا اور وہ وہیل میرے قبضہ قدرت سے نکل کر آسمان کے تاریک سمندر میں کھو گئی۔

آج۔۔۔ اب میرے ہاتھ پہلے کی نسبت مضبوط تھے اور ہتھیلیاں توانا۔ وہ ڈور اگر میرے ہاتھ میں آجائے تو میں اسے کبھی نہ چھوڑوں کہ وہیل تبھی موت سے ہمکنار ہوتی ہے۔ اس کے گرد سرخ پھول تبھی کھلتا ہے اگر ڈور کو مضبوطی سے تھامے رکھا جائے۔۔۔ خون میں خون اور الکوحل کی گردش کے تجربوں سے اکتائے ہوئے جسم کے لیے لذت کا آسمانی احساس آج بھی اسی تنی ہوئی ڈور سےعبارت ہے جو بسنت کی شام میرے کانوں پر سرسرائی تھی۔۔۔ اور پھر بچپن میں ایک معصوم خواہش ہمیشہ میرے جسم پر رینگتی رہی۔۔۔ اگر میں ایک شہزادہ ہوتا تو اپنے تمام درباریوں، وزیروں، سفیروں کو کہتا کہ وہ گلی کے پار اس اونچے پکے کوٹھے پر کھڑے ہوکر یہ بڑی بڑی پتنگیں اڑائیں اور جب وہ آسمانوں سے ناک رگڑنے لگیں تو انہیں ہاتھوں سے چھوڑ دیں، ڈور کو خود توڑ دیں۔۔۔ اور میں اِدھر۔۔۔ اس کچے کوٹھے پر کھڑا ان تمام پتنگوں کو لوٹتا رہوں۔ صرف اس تجربے سے لطف اندوز ہونے کے لیے جب ڈور تمہارے اوپر آہستگی سے گرتی ہے اور تم اسے جھپٹ کر تھام لیتے ہو اور پھر وہ دھیرے دھیرے تننے لگتی ہے۔۔۔

میں شہزادہ تو نہ بن سکا مگر دوسرے کوٹھے پر تمام وزیر، امیر، سفیر بڑی بڑی پتنگیں اڑا رہے ہیں۔ میں اپنےکچے کوٹھے پر چیتھڑوں میں لپٹا ننگے پاؤں، پچکے ہوئے پیٹ کو تھامے ان پتنگوں کے کٹنے کا منتظر ہوں مگر وہ انہیں کبھی نہیں چھوڑتے میرے لیے، ان کی ڈور مضبوط ہے اور وہ کبھی اسے میرے لیے نہیں توڑیں گے۔ جب تک کہ میں ایک چھوٹی سی کشتی پر سوار ان پتنگوں کے درمیان نہ چلا جاؤں اور انہیں اپنے بازوؤں سے توڑ کر لوٹ نہ لوں۔۔۔

’’گٹن مارگن!‘‘

زمان نے چونک کر پیچھے نگاہ ڈالی۔ جرمن لڑکے ریت پر قدم جماتے آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک وہ مخصوص جرمن تھا جو قدرے فربہ ہوتا ہے۔ تھرتھراتے ہوئے گال ہر وقت سرخ رہتے ہیں اور بیئر ہالوں میں مخمور ہوکر میز پر چڑھ کر چیختے ہوئے ’’ڈش لینڈ اوبرآلیس‘‘ گاتا ہے۔ دوسرا لڑکا اگر تن کر کھڑا ہو تو مشاقی سے کٹے ہوئے سوٹ میں اس کا بانکا جسم ایسے ہسپانوی کا تھا جس کی رگوں میں شاہی خون کی غیرقانونی آمیزش ہوتی ہے۔ مگر جب وہ دو قدم چلتا ہے تو اس کے لچکتے ہوئے کولہوں اور بازوؤں کے نسوانی تحریک کو دیکھ کر طبیعت متلانے لگتی ہے۔ زمان کو صبح بخیر کی آرزو بیئر ہال والے جرمن نے کی تھی جو ایک بے دام غلام کی طرح دوسرے کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا۔

ہسپانوی سمندر نتھنوں میں ایک عجیب سنساتی باس پھیلا دیتا ہے۔۔۔ ہا۔ ہا۔ موٹا جرمن نتھنے پھلا کر ہا۔ ہا۔ ہا کرتا گہرے سانس لینے لگا۔ اس کے بانکے ساتھی نے کندھے اچکائے اور باریک ہونٹوں کو بھینچ کر اس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

’’ہا۔ ہا۔ ہا۔۔۔ سمندر۔ تازہ ہوا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘

’’اور کیا گنتھر؟‘‘ بانکا جرمن اپنے ہونٹوں میں سے جیسے تھوکتا ہوا بولا۔

’’اور تم فرٹز۔۔۔ اور تم‘‘ موٹے جرمن نے اتنے پالتو پیار سے کہا کہ اگر زمان وہاں نہ ہو تو شاید وہ اس کے قدموں میں لوٹنے لگتا۔

’’آپ پچھلی شب بہت دیر سے کیمپنگ میں آئے۔‘‘ فرٹز یک دم زمان سے مخاطب ہو کر بولا۔

’’جی!‘‘

’’تبھی۔۔۔‘‘ فرٹز کے بھنچے ہوئے ہونٹ سفاکانہ انداز میں پھیل گئے۔

’’تبھی کیا؟‘‘

’’تبھی آپ بادشاہ کے ہمسائے میں ہیں۔۔۔ بہرحال اندھیرے میں ایسا ہی ہو جاتا ہے۔‘‘

’’ہاں اندھیرے میں۔۔۔‘‘ گنتھرخوش ہو کر چہکا۔

’’بکواس نہیں کرو شوائن۔‘‘ فرٹز کی آواز ایک سستی سیٹی کی طرح چیخی۔ سطحی اور سماعت کور گڑتی ہوئی۔
’’سوری فرٹز۔۔۔‘‘ گنتھر نے ایک پشیمان کتے کی طرح سر جھکایا اور پھر فوراً ہی ہاہاہا کرتا نتھنے پھلا کر سمندر کی ہوا کو اپنے اندر کھینچنے لگا۔
’’لیکن میرے خیمے کے سامنے ایک بوڑھا ہے۔۔۔ لاتعداد بلیوں والا بوڑھا۔‘‘

فرٹز نے ایک تمسخر سے لتھڑی ہوئی مسکان کے ساتھ زمان کو حقارت سے دیکھا، ’’تم جب رائلٹی کو دیکھتے ہو تو تمہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ تم رائلٹی کو دیکھ رہے ہو۔‘‘ وہ ایک غلیظ سے قہقہے کو چباتے ہوئے بولا، ’’وہ رائلٹی ہے براؤن میں۔ وہ بلیوں والا بوڑھا نہیں بادشاہ ہے۔ تم نے اس کے خیمے پر لہراتے ہوئے جھنڈے کو غور سے نہیں دیکھا۔۔۔ کنگ آف سکاٹ لینڈ۔۔۔ یقین نہیں کرتے تو خود جا کر پوچھ لو۔۔۔‘‘

’’اور صرف بلیاں نہیں۔۔۔‘‘ فرٹز کو خوش کرنے کی غرض سےگنتھرمسکین صورت بنا کر پوپلے منہ کہنےلگا، ’’بلیاں، مکھیاں، مچھلیاں۔۔۔ رات کو ان کے غرانے کی آواز نہیں آئی؟ مچھلیوں کی سڑاند سے آشنا نہیں ہوئے؟ مکھیوں کی بھنبھناہٹ تمہارے کانوں میں نہیں سرکتی رہی۔۔۔؟ یہ آوازیں اور بوباد شاہ کی سلطنت کا قومی ترانہ ہے۔۔۔ گاڈسیودی کنگ۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔‘‘ اسے پھر سمندر کا خیال آگیا اور نتھنے پھلا کر گہرے سانس لینے لگا۔ ہواخوری سے پیٹ بھر کر وہ زمان سے ایسے سوال پوچھنے لگا جو کیمپنگ میں آنے والے ہر نووارد سے پوچھے جاتے ہیں۔ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟ کتنے روز قیام کروگے؟ اور پھر تینوں کیمپنگ کی جانب چلنے لگے۔ فرٹز لمبے لمبے ڈگ بھر رہا تھا اور گنتھر اس کے پہلو میں اچک اچک کر برابر ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور ہانپتے ہوئے زمان سے گفتگو بھی کرتا چلا جا رہا تھا۔ اپنے خیمے کے قریب پہنچ کر انہوں نے ’’افیداذین‘‘ کہا اور چپکے سے اندر گھس گئے۔

اپنے پیوند خوردہ خیمے کے سامنے بلیوں والا بوڑھا، بلیوں میں گھرا حسب سابق اخبار پڑھ رہا تھا۔ فرٹز نے درست کہا تھا۔ خیمے کے بانس پر ایک جھنڈا نما چیتھڑا پھڑ پھڑا رہا تھا اور اس پر کنگ آف سکاٹ لینڈ کے الفاظ لکھے تھے۔

’’بادشاہ کی ہمسائیگی میرے بس کی بات نہیں۔‘‘ زمان نے خیمے میں داخل ہوتے ہوئے سوچا، ’’میں تو علی کانت میں اچھا وقت گزارنے کی خاطر آیا ہوں۔ اور اگر آپ ایک عدد ’اچھا وقت‘ اپنے خیمے میں لا رہے ہیں اور وہاں یہ بوڑھا اور اس کی بلیاں چوکیداروں کی طرح براجمان ہوں تو ایسے حیوانی ماحول سے دہشت زدہ ہوکر ’اچھا وقت‘ تو پاس بھی نہیں پھٹکنے دے گا۔ ساحل کے قریب خیمہ لگایا جائے۔‘‘ زمان نے اپنا مختصر سامان سمیٹا اور خیمے کو اکھاڑنے کی نیت سے باہر آگیا۔ پہلے میخوں کی باری تھی جو پچھلی شب عجلت کے سبب زمین میں پوری گہرائی تک نہیں اتری تھیں۔ وہ ان کی گردنیں پکڑ کرخود رو کھمبوں کی طرح مزے سے اکھاڑنے لگا۔

’’ہیلو لیڈی۔۔۔‘‘ زمان کی چٹکی ابھی پانچویں میخ کے گرد بھنچ رہی تھی کہ بوڑھے کی آواز آئی۔


’’ہیلو!‘‘ چٹکی میخ پر جمی رہی مگر اس نے بوڑھے کی جانب دیکھا نہیں۔


’’میں نے کہا ہیلو لیڈی!‘‘ وہ پھر بولا۔ زمان نے اس کی طرف ایک سپاٹ چہرے سے دیکھا۔ بوڑھے کے سفید دانت اس کے پپڑی جمے ہونٹوں سے باہر آکر چمکنے لگے۔ پھر اس نے ایک دم ہونٹ بھینچے اور فوراً ہی کھول دیے۔ مگر اس مرتبہ اوپر والی قطار میں سے اس کے تین دانت غائب ہوچکے تھے۔

’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘

’’پاکستان کا ہوں۔‘‘

’’وہاں مکھیاں ہوتی ہیں؟‘‘

’’ہاں بہت ہوتی ہیں۔‘‘

’’تو پھر مجھے ان کے بارے میں بتاؤ۔۔۔ آؤ۔‘‘

زمان آخری میخ کو ہتھیلی پر رکھ کر اسے کچھ دیر تک گھماتا رہا اور پھر بوڑھے کے پاس چلا گیا۔ ایک بلی نے فوراً اس کے پاؤں کو سونگھا اور پھر دم اٹھا کر دھوپ میں انگڑائیاں لینے لگی۔ بوڑھے نے ایک مرتبہ پھر ہونٹ بھینچنے کا عمل دہرایا اور اس کے گم شدہ نقلی دانت بتیسی میں واپس آچکے تھے۔

’’اُن جرمن سوروں کے خوفزدہ کرنے پر خیمہ اکھاڑ رہے ہو۔‘‘ وہ انتہائی غصے سے بولا، ’’گندی مچھلیاں دونوں۔۔۔ ہوموز۔۔۔ تمہیں یہاں پر ہسپانیہ کے دوسرے علاقوں کی نسبت مکھیاں کم نظر نہیں آئیں؟‘‘

’’میں نے غور نہیں کیا۔۔۔‘‘ زمان قدرے بوکھلا کر بولا۔

’’غور کرو۔۔۔ اپنا ہاتھ ہوا میں لہراؤ، کیا کوئی مکھی اس کے راستے میں حائل ہوتی ہے؟ ایک ٹافی کو منہ میں چبا کر اپنے خیمے کے سامنے رکھ دو پھر تمہیں پتہ چلے گا۔‘‘

’’ہاں شاید کم ہی ہیں۔‘‘ زمان نے اس کا دل رکھنے کے لیے کہہ دیا۔

’’اور اس کا ذمہ دار میں ہوں۔۔۔‘‘ بوڑھے نے رعونت سے اعلان کیا۔ زمان کچھ زیادہ ہی بوکھلا گیا۔ کچھ کہنے کو منہ کھولا اور پھر سر ہلا کر ہونٹ بھینچ لیے۔

’ہاں۔ اس کا ذمہ دار صرف میں ہوں۔۔۔ پانچ برس پہلے جب میں اس ساحلی شہر میں آیا تھا، یہاں کی ہوا میں کسی اور پرندے کے لیے اڑنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ مکھیاں ٹڈی دل کی طرح چھائی ہوئی تھیں۔۔۔ ان دنوں میں سانگر یا سپرسٹور کے گوشت کے کاؤنٹر پر گیا تو وہاں پانچ میٹر ×تین میٹر کے رقبے میں بڑے گوشت کے ٹکڑوں پر پوری ایک سو سینتیس مکھیاں بیٹھیں ہوئی تھیں۔ میں نے خود گنیں۔۔۔ اور اب۔۔۔ تم یقین نہیں کرو گے۔۔۔‘‘ وہ پراشتیاق لہجے میں بولا اور پھر اپنے مصنوعی دانت زبان کے سرے سے علیحدہ کر کے انہیں کہیں حلق میں روپوش کرتے ہوئے خاموش ہو گیا۔۔۔ زمان کی خاموشی پر وہ جھلا کر کہنے لگا، ’’میں کہہ رہا ہوں تم یقین نہیں کروگے۔۔۔‘‘

’’کس بات پر؟‘‘ زمان نے بھی جھلا کر پوچھا۔

’’یہی کہ پچھلے ہفتے میں سانگر یا سپرسٹور میں گیا اور اسی گوشت کے کاؤنٹر پر پانچ میٹر× تین میٹر کے رقبے میں بیٹھی ہوئی مکھیوں کو شمار کیا۔۔۔ صرف چوبیس۔۔۔ اور اس کا ذمہ دار میں ہوں۔‘‘

’’یعنی آپ مکھیاں مارتے ہیں؟‘‘

’’میں انہیں مارتا نہیں۔ صرف ٹریپ کرتا ہوں اور وہ خود ہی مر جاتی ہیں۔‘‘

’’دلچسپ مشغلہ ہے۔‘‘

’’مشغلہ؟‘‘ وہ بھڑک اٹھا، ’’یہ میری زندگی کا نصب العین ہے۔ ایک ایسا نظام قائم کرنا جو مکھیوں سے پاک ہو۔ مجھے مکھیوں سے شدید نفرت ہے۔ یہ گندگی پھیلاتی ہیں۔ نیچ ذات کی یہ مخلوق اگر ایکا کر کے متحد ہو جائے تو شریف آدمیوں کا جینا دوبھر کر دیتی ہے۔ دوسرے جانوروں کی طرح رہائش ان کا مسئلہ نہیں۔ یہ صرف خوراک کی متلاشی ہوتی ہیں۔ صرف پیٹ بھرنا چاہتی ہیں۔ دنیا میں ہر برائی کی جڑ مکھی ہے۔ اسے ختم کرو تو ہر طرف امن اور آشتی کا دور دورہ ہو جائے۔ دنیا ستھری ہو جائے۔۔۔ کارخانے چلیں۔ دولت کی ریل پیل ہو۔ جنگ کیوں ہوتی ہے؟ اس لیے کہ سیاست دان ایسی خوراک کھا لیتے ہیں جس پر مکھیاں بیٹھی ہوتی ہیں اور پھر ان کے معدے بگڑ جاتے ہیں اور وہ نروس ہوکر جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔

اور یہ جو حادثے ہوتے ہیں سڑکوں پر۔ ڈرائیور آرام سے کار چلا رہا ہے۔ سامنے سے ایک اور کار آتی ہے اور بینگ۔۔۔ دونوں ڈرائیور قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم اپنی اپنی سائڈ پر معینہ رفتار کے اندر کار چلا رہے تھے۔ پھر حادثہ کیسے ہوگیا۔۔۔؟ بہت آسان جواب ہے۔ ایک ڈرائیور کی آنکھوں کے سامنے سے ایک سیکنڈ کے لیے ایک عدد مکھی پرواز کر جاتی ہے۔ ظاہر ہے اس ایک سیکنڈ کے لیے ڈرائیور دیکھ نہیں سکتا اندھا ہو جاتا ہےاور بینگ۔۔۔ اور یہ جوآئے دن دہشت پسند ہوائی جہاز اغوا کرتے ہیں۔ وہ بھی صرف مکھیوں کی وجہ سے۔۔۔ اور یہ ہڑتالیں اور مظاہرے۔۔۔ مکھیوں سے پاک نظام قائم کرنے کے لیے میرے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو خالی پیٹ رہ کر بھی اپنے ایمان کی قوت سے اس آدرش کی تکمیل کر سکتا ہو۔‘‘

پاگل پن اور کسی بھی عقیدے پر اندھا دھند یقین رکھنے کے درمیان ایک باریک سی لکیر ہے۔ زمان کے سامنے ہانپتا ہوا ایک ایسا انسان تھا جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ اس لکیر کے اِدھر ہے یا اُدھر جا چکا ہے۔

’’دنیا میں اور لوگ بھی میری طرح مکھیوں سے نفرت کرتے ہیں، ان کا قلع قمع کر دینا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘ بوڑھے کے ہونٹ پھر لرزنے لگے، ’’مگر ان کے پاس مناسب طریقہ قتل نہیں ہے اور میرے پاس ہے۔۔۔ ایک انتہائی منظم اور ناکام نہ ہونے والا سو فیصد طریقہ قتل۔۔۔ میں نے ایک ایسی مشین بنائی ہے جو ایک گھنٹے میں پانچ سو مکھیاں قتل کرتی ہے۔۔۔ یہ اوسط شرح موت ہے۔ کبھی کبھار پانچ سو تیس تک بھی مر جاتی ہیں۔۔۔ میرے ساتھ آؤ۔‘‘ وہ اخبار سمیٹ کر اپنے آپ کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی ٹانگیں بھی ٹیڑھی تھیں۔ بند بریکٹوں کی طرح۔ وہ انہیں حرکت میں لاکر ٹین کے ان ڈبوں کی طرف گیا جو اس کے خیمے کے پہلو میں نصب تھے۔

مکھیاں پاگلوں کی طرح بھنبھنا رہی تھیں۔ ان کی بھنبھناہٹ کی گونج سے زمان کے کانوں کے پردے لرزنے لگے۔ بوڑھے نے ایک ڈبے پر ہاتھ مارا اور فخر سے کہنے لگا، ’’ایک گھنٹے میں پانچ سو مکھیاں۔۔۔ اور طریقۂ کار بے حد آسان۔۔۔ مچھلی مارکیٹ سے پانچ کیلو مچھلی خرید لو، ان کے سر علیحدہ کر کے ان ڈبو میں ڈال دو۔ مچھلی کے سروں میں سے ایک ایسی بو نکلتی ہے جو ان مکھیوں کو مسحور کر دیتی ہے۔ وہ چاروں طرف سے منڈلاتی ہوئی اس بو کی جانب آتی ہیں۔ اس کا تعاقب کرتی ہوئی ڈبے کے اندر داخل ہو جاتی ہیں۔ مگر اندر جاتے ہی وہ ٹریپ ہو جاتی ہیں کیونکہ اب باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ آہستہ آہستہ یہ بو ان کے دماغ پر اثر انداز ہونے لگتی ہے اور وہ نیم مدہوش ہوکر ڈبوں کے نیچے بندھے تھیلوں میں گر جاتی ہیں۔۔۔‘‘

’’یعنی اس مشین کو چلانے کے لیے صرف مچھلیوں کے سر درکار ہیں؟‘‘

’’ہا۔۔۔‘‘ اس نے مسرت کے اظہار کے طور پر اپنے تین نقلی دانت پھر سے غائب کر دیے، ’’یہی تو ٹریپ ہے۔۔۔ عام مچھلیاں نہیں مائی ڈیئر۔ ایک مخصوص نسل کی چھوٹے سر والی مچھلی جس کے بارے میں اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کے سر میں سے ایک ایسی بو نکلتی ہے جو مکھیوں کو مست کر دیتی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں۔ مچھلی مارکیٹ میں پڑے ڈھیروں میں سے میں خود انہیں پہچانتا ہوں اور ایک ایک مچھلی چنتا ہوں۔ یہی تو ٹریپ ہے۔‘‘

مکھیوں کے یہ ٹریپ واقعی انتہائی ہنر مندی سے بنائے گئے تھے۔ ہر ٹریپ پر مکھیوں کے غول بھنبھنا رہے تھے۔ بوئے فنا انہیں اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ زمان نے دیکھا کہ یہ یک طرفہ ٹریفک ہے۔ جو مکھی ایک مرتبہ نیچے چلی گئی سو چلی گئی۔ ڈبوں کے نیچے بندھے تھیلے بھاری ہو رہے تھے۔ بوڑھا ہر تھیلے کو ٹٹولتا اور اس میں ذخیرہ شدہ انبار پر اظہار اطمینان کرتا۔ بلیاں حسب سابق اس کے پہلو بہ پہلو چل رہی تھیں۔

’’جب یہ تھیلے بھر جاتے ہیں تو میں انہیں اتارتا ہوں اور سمندر میں جا کر ڈبو دیتا ہوں۔‘‘

’’میرا خیال تھا کہ آپ انہیں ان بلیوں کو کھلا دیتے ہیں۔‘‘ زمان نے کچھ کہنے کے لیے کہہ دیا۔

’’یہ بلیاں۔۔۔‘‘ وہ ایک نرم پسی کو ٹھوکر مار کر بولا، ’’یہ لالچی درندے میرا ساتھ صرف اس لیے دیتے ہیں کہ میں انہیں خوراک مہیا کرتا ہوں۔ مچھلیوں کے سر تو مکھیوں کو ٹریپ کرنے کے کام آتے ہیں۔ باقی تقریباً چار کیلو گوشت بچ جاتا ہے۔ ایک کیلو میں کھا جاتا ہوں اور بقیہ ان بروٹس کو کھلا دیتا ہوں۔ انہیں خوراک کا لالچ نہ ہو تو کبھی میرا ساتھ نہ دیں۔‘‘

’’تو کیا آپ کے یہاں آنے سے بیشتر ساری بلیاں بھوکوں مرتی تھیں؟‘‘ زمان نے پھر ہانکی۔

’’یہی تو ٹریپ ہے۔۔۔‘‘ وہ پھر اپنی بے دانت مسکراہٹ نمایاں کر کے بولا، ’’میرے یہاں آنے سے پہلے یہ ماری ماری پھرتی تھیں۔ خوراک کے لیے جدوجہد کرتی تھیں، مگر اب یہ نکمی ہو گئی ہیں، سست ہوچکی ہیں۔ یہ بھول چکی ہیں کہ اپنے پنجوں سے کوڑا کرکٹ بکھیر کر اس میں سے خوراک کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اب ان کی زندگی کا انحصار صرف مجھ پر ہے لیکن میں انہیں یونہی کھانے کو نہیں دے دیتا۔ میز پر مچھلیوں کے دھڑ رکھ دیتا ہوں اور یہ بھوک سے مجبور اس کے گرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ مگر میں انہیں کھانے نہیں دیتا۔ انہیں بھوکا رکھتا ہوں اک خاص وقت تک۔ ایک ایسے لمحے تک، جب اگر میں خوراک نہ دوں تو یہ مجھ پر حملہ آور ہو جائیں۔ جانتے ہو کیوں؟‘‘

’’کیوں؟‘‘ زمان نے فوراً تعمیل کی۔

’’اس لیے کہ میرے بدن میں بھی اب مچھلی کی بو ہے۔ میں خود ایک مچھلی ہوں۔ ذرا سونگھو۔‘‘ اس نے زمان کی ناک کے آگے اپنا کینچلی دار بازو کر دیا۔ ہاں اس میں بو تھی مچھلی کی۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں انہیں ایک آخری لمحے تک بھوکا رکھتا ہوں کہ اس وقت اگر انہیں کھانے کو نہ ملے تو یہ مجھے، میرے جسم کو نوچ ڈالیں اور اس آخری لمحے کی پہچان بھی صرف مجھی کو ہے۔ اس وقت ان کے نکو سے ہوئے دانتوں پر حیوانی جذبے پوری شدت سے چمک اٹھتے ہیں۔ ان کی غراہٹ کا رنگ بدل جاتا ہے۔ آنکھیں پوری کھل جاتی ہیں اور پھر ایک بلی آگے بڑھ کر میرے بوٹ پر دانت گاڑ دیتی ہے۔ تب میں ان کے درمیان مچھلیوں کے دھڑ پھینک دیتا ہوں۔‘‘ بوڑھے نے نفرت سے اپنے بازوؤں پر کھجلی کی اور اس کی جھلی اترنے لگی۔ جھلی کے نیچے بھی مچھلی کے چانوں کی طرح کے کھرینڈ جمے ہوئے تھے۔

’’کیا یہ خطرناک ثابت نہیں ہو سکتا؟ اگر آپ اس آخری لمحے کی پہچان نہ کر پائیں، چند سیکنڈوں کی دیر کردیں تو؟‘‘

’’یہی تو ٹریپ ہے۔‘‘ وحشی اطمینان اس کے چہرے سے پھوٹا، ’’یہی تو خوبصورتی ہے۔ موت کی ٹھنڈی سانسیں ان کی غراہٹ میں سے نکلتی محسوس کرنا اور پھر ان سانسوں کے سرد تر ہونے سے پہلے ہی خالی پیٹ کے لیے ایندھن مہیا کر دینا۔ یہی تو ٹریپ ہے۔‘‘ اس نے ایک تھیلے کو خاصی دیر تک ٹٹولنے کے بعد اس کا منہ ایک رسی کے ٹکڑے سے گھونٹا اور گھسیٹتا ہوا زمان کے قریب لےآیا، ’’بالکل بھرا ہوا ہے۔ میں انہیں سمندر میں ڈبو کر ابھی آتا ہوں۔۔۔‘‘

وہ اور اس کا تھیلا اور اس کی بلیاں ریت پر گھسٹنے لگے۔ زمان واپس اپنےخیمے کے قریب آیا اور مٹھی میں پسینے سے بھیگتی ہوئی میخ کو اس کی اصلی جگہ پر پھر سے ٹھونک دیا۔

خوشبو کیا ہے اور بدبو کسے کہتے ہیں۔ پہلے صرف بو ہوتی ہے، اس کے ساتھ خوشی اور بدی کا اضافہ ہماری حسیات کرتی ہیں۔ ذہنی رویے کرتے ہیں۔ شراب کی بو ایک بدبو ہے، بدی سے بچنے والوں کے لیے اور خوشبو ہے، خوشی کی چاہت میں گرفتار بدن کے لیے۔ نسل پرور پانیوں کی بو ٹھنڈے جسموں کے لیے بدبو ہے اور انہیں جسموں میں حدت بیدار ہو جائے تو وہی خوشبو کہلاتی ہے۔ کڑوے تیل کا تڑکا بدبو ہے ان کے لیے جن کے پیٹ بھرے ہوں اور خوشبو جن کے تن بدن میں بھوک کے بلڈوزر چلتے ہیں۔۔۔ مچھلی کے سر میں سے نکلنے والی بو ان مکھیوں کے لیے کیا ہے؟

دوسری صبح جب اس کی آنکھ پوری طرح کھلی تو ایک بوڑھا سرخیمے کے پردے میں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ مینٹل پیس پر سجا ہوا ایک حنوط شدہ جانور کا سر یا جیسے سیاہ چادر میں سے جھانکتا کسی چڑیل بڑھیا کا چہرہ۔ مگر وہ مسکرا رہا تھا اپنے تین نقلی دانتوں سمیت۔ زمان کو جھرجھری سی آگئی۔

’’تم اپنے ملک کے صدر کو ذاتی طور پر جانتے ہو؟‘‘

اگر کوئی اور شخص یوں اس کے خیمے میں تاک جھانک کرتا تو وہ یقینا غصے سے پھٹ پڑتا مگر زمان بوڑھے سے قدرے خوفزدہ تھا۔ بوڑھے سے اور اس کی بلیوں سے۔

’’ہمارے سیاسی نظام میں صدر نہیں ہوتا۔‘‘ زمان اسے ٹالنے کے انداز میں بڑبڑایا۔

’’پھر وزیر اعظم ہوتا ہوگا، تم اپنے ملک کے۔۔۔‘‘

’’ہمارے ہاں وزیر اعظم بھی نہیں ہوتا۔‘‘

’’پھر کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’ایک تیسری جنس۔۔۔‘‘

’’خیر جو کچھ بھی ہوتا ہے، تم اسے ذاتی طور پر جانتے ہو؟‘‘

’’یار ہے اپنا۔۔۔‘‘ زمان نے پیچھا چھڑانے کی غرض سے بے بس ہوکر کہا۔

’’یہی تو ٹریپ ہے۔۔۔‘‘ وہ سر جھٹک کر خیمے کے اندر آنے کو تھا کہ زمان اٹھ بیٹھا، ’’دیکھیں مسٹر۔۔۔‘‘

’’مسٹر نہیں۔۔۔ کنگ۔۔۔ تم مجھے اسی لقب سے پکار سکتے ہو۔‘‘

’’کنگ؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ کنگ آف سکاٹ لینڈ۔۔۔‘‘ آنکھوں کے گرد حلقے سیاہ تر ہوگئے کہ وہ گہری متانت سے زمان کو یہ معلومات فراہم کر رہا تھا، ’’کبھی میرے بڑے بوڑھے سکاٹش ہائی لینڈز پر حکمران تھے، اپنے بیگ پاپئس سمیت۔ میرے خیمے میں پورا شجرہ نسب موجود ہے لیڈی۔۔۔ جونہی جمہوریت اور عوام کا یہ ممبو جمبو ختم ہوا وہ لوگ مجھے لے جائیں گے اور سکاٹ لینڈ کا شاہی تخت جھاڑ پونچھ کر میرے حوالے کردیں گے۔۔۔ ہے لیڈی تم اس بات پر بے حد مغرور نہیں ہوگے کہ تم ایک بادشاہ کو ذاتی طور پر جانتے ہو۔۔۔ ہیں؟‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس دیا، ’’اور ہاں تم شاید کچھ کہنے والے تھے۔‘‘

’’میں یہ کہنے والا تھا کنگ کہ میں پچھلے دس برسوں سے بریڈ فورڈ کی ایک فیکٹری میں کھڑکیوں کے سیاہ پڑتے شیشوں کو صابن سے دھونے پر لگا ہوا ہوں۔ اس دوران کبھی ملک واپس نہیں گیا۔ میں کیسے۔۔۔‘‘ کنگ کا سر فی الفور خیمے کے پردے سے باہر چلا گیا مگر فوراً ہی پھر نمودار ہوگیا۔


’’تم اپنے ملک کے سربراہ کو ذاتی طور پر نہیں جانتے ناں؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تو پھر میرے پاس ایک ایسا نسخہ ہے کہ تم جان سکتے ہو۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’باہر آؤ پھر بتاؤں گا۔‘‘

زمان کو یقین تھا کہ باہر آنے پر اس کے جبڑے ایک ایسے باکسر کی طرح گالوں میں سے ابھرے ہوے ہوں گے جو مکے کی شدت سے بچنے کے لیے منہ میں چیونگم کا گولا رکھتا ہے مگر ایسی بے ہنگم صورت حال میں وہ باہر نہ آتا تو اور کیا کرتا۔

کسی سانولی کے گیلے لبوں کی طرح سمندر سے آنے والی ہوا میں نمکین نمی تھی۔ کنگ کے ہمراہ بلیوں کا لشکر بھی تھا جو اس کے خیمے کی جانب رخ کرتے ہی اباؤٹ ٹرن ہو کر اس کے پیچھے پیچھے مارچ کرنے لگا۔ کنگ اطمینان سے اپنی کرسی کے پاس گیا اور اس کی پشت پر شاہانہ انداز میں ہاتھ رکھ کر اپنے دانتوں کی نمائش کرنے لگا۔ پھر فی الفور اس کے اگلے تین دانت منہ میں غائب ہوگئے۔ البتہ وہ انہیں زبان سے اِدھر اُدھر گھماتا رہا اور ان کے اصلی دانتوں سے ٹکرانے کی ٹک ٹک سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

’’تمہارے ملک میں مکھیاں بہت زیادہ ہیں ناں؟‘‘

’’ہاں بہت زیادہ۔‘‘

’’یہی تو ٹریپ ہے۔‘‘ ٹریپ لفظ کی ادائیگی پر اس نے اپنے منہ میں پھرتے آوارہ دانت کھٹاک سے بتیسی میں فٹ کرلیے، ’’تم فوراً اپنے ملک واپس جاؤ اور وہاں کے سربراہ مملکت سے کہو کہ تمہارے ایک دوست۔۔۔ یعنی میرے پاس ایک ایسا نسخہ ہے جس کے استعمال سے پورے پاکستان میں مکھیوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور یوں وہاں ایک صاف ستھرا مکھیوں سے پاک نظام قائم ہو جائے گا۔۔۔ وہ یقیناً اس پیش کش سے فائدہ اٹھانا چاہے گا اور یوں تم اس کے بھی دوست بن جاؤگے۔‘‘

’’بہت بہتر۔‘‘ زمان نے ایک بلی کو جو خاصی دیر سے اس کے ننگے پاؤں چاٹ رہی تھی ایک ٹھڈا رسید کرتے ہوئے غصے سے کہا۔

’’تو پھر کب جا رہے ہو؟‘‘

’’چلا جاؤں گا دوچار روز میں۔‘‘

’’ہے لیڈی۔۔۔‘‘ زمان اپنے خیمے میں جانے کو مڑا تو کنگ نے صدا دی، ’’تم نے پوری بات تو سنی ہی نہیں۔‘‘

’’یور میجسٹی۔۔۔‘‘ زمان نے جعلی تعظیم سے جھکتے ہوئے پوچھا۔

’’مکھیاں مفت میں تو ختم نہیں کروں گا۔۔۔‘‘ کنگ اترا کر بولا، ’’میری فیس ہوگی۔۔۔ صرف دس لاکھ ڈالر۔۔۔ زیادہ ہے؟‘‘

’’نہیں بہت مناسب ہے۔۔۔‘‘ وہ چاٹنے والی بلی اب زمان کی جین کو چبانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ’’آپ کی یہ بلی۔۔۔‘‘

’’بلی؟‘‘ کنگ ہنس دیا، ’’بلا ہے۔۔۔ ٹام کیٹ۔۔۔ شی کیٹ نہیں ہے۔۔۔ بلیوں کی جنسی زندگی کے بارے میں جانتے ہو۔ نہایت دلچسپ۔۔۔‘‘ جنس کا حوالہ سن کر زمان بے حد فرسٹریٹ ہوا اور فوراً اپنے خیمے میں چلا گیا۔

’’ہیلو لیڈی۔۔۔‘‘ بوڑھے کا سر پھر خیمے کے اندر جھانک رہا تھا۔ زمان کا پارہ چڑھ گیا، ’’اگر آپ برا نہ مانیں کنگ تو۔۔۔ میں۔۔۔ اس وقت۔۔۔ آرام۔۔۔ کرنا۔۔۔ چاہتا ہوں۔‘‘

’’در اصل میں سوچ رہا تھا کہ تم میرے دوست ہو۔‘‘ کنگ نے زمان کے اگلتے ہوئے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، ’’اور میں اپنے دوست کے لیے ہر قربانی دے سکتا ہوں۔۔۔ پانچ لاکھ۔‘‘

’’کیا پانچ لاکھ؟‘‘

’’میں صرف تمہاری وجہ سے تمہارے ملک کی مکھیوں کو قتل کرنے کے لیے اپنی فیس نصف کرنے کو تیار ہوں۔۔۔ صرف پانچ لاکھ ڈالر چارج کروں گا، ٹھیک ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘

’’اب تو خوش ہو ناں۔‘‘

’’ہا۔ ہا۔ ہا۔‘‘ زمان نے ایک پتلی کی طرح ’’ہاہا‘‘ کیا مگر کنگ اس بناوٹی قہقہے کے خاتمے سے پیشتر ہی غائب ہوگیا۔

’’میرا خیال ہے پاکستان ایک غریب ملک ہے۔‘‘ وہ پھر آگیا۔

’’ہاں ہے۔‘‘ زمان نے دانت پیستے ہوئے سر جھٹکا۔

’’پھر تو زیادتی ہے۔‘‘

’’کیا زیادتی ہے؟‘‘ زمان تقریباً پھٹ پڑا۔

’’یہی پانچ لاکھ ڈالر۔۔۔‘‘ بوڑھا بالکل سرد لہجے میں کہنے لگا، ’’میں اتنا سنگ دل نہیں ہوں کہ ایک غریب، پسماندہ، مکھیوں سے بھرے ہوئے ملک سے پانچ لاکھ کی رقم چارج کروں۔۔۔ میرا دل روتا ہے ان کالے ایشیائی ملکوں کے لیے۔۔۔ صرف ایک لاکھ ڈالر۔۔۔ اور یہ فائنل ہے۔۔۔ فائنل! سمجھے؟‘‘ اور چپکے سے سر نکال کر غائب ہوگیا۔ شام تک اس کا دل زمان کے غریب ملک کے لیے اتنا رویا، اتنا رویا کہ فیس گھٹتے گھٹتے پانچ ہزار ڈالر رہ گئی۔

سومنگ کاسٹیوم کے سخت الاسٹک بینڈ اور بدن کے درمیان انگلی چلا کر اس نے آہستہ آہستہ الاسٹک کے کھبے ہوئے دانتوں کو گوشت سے علیحدہ کیا اور اس عمل سے سکون محسوس کرتے ہوئے ریت پر اوندھا لیٹ گیا۔ کاسٹیوم نیا تھا اور اس کا سخت الاسٹک پانچ دس منٹ کے بعد بدن کو چیونگم کی طرح چبانے لگتا تھا۔ کبھی بدن پر سورج کی تمازت غالب آجاتی اور تھوہر کی فصل اگ کر سوئیاں سی چبھونے لگتی اور دوسرے لمحے سمندر کی نیم خنک ہوا سے کپکپی طاری ہو جاتی۔ وہ آنکھیں موندے لیٹا رہا اور لمحہ بہ لمحہ حرارتی درجوں کی کیفیات اس پر وارد ہوتی رہیں۔ سمندر کا اطمینان اس دبی دبی سرسراہٹ سےعیاں تھا جو لہروں کے ریت پر پھیلنے اور پیچھے ہٹنے سے وجود میں آرہی تھی۔

سمندر سے آنے والی ہوا نے یک دم سانس روک لیا اور اس کی پشت پر چمٹے ریت کے ذروں نے حدت کی چھوٹی چھوٹی کنکریوں کی صورت میں اسے بے آرام کر دیا۔ وہ سستی کے خمار میں اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا پانی کی حدوں میں داخل ہو گیا۔ پہلے ریت نے اس کے گرم تلووں کو چوسا اور پھر چند قدم چلنے کے بعد پاؤں میں کورل کے نوکیلے پتھر چبھنے لگے۔ پانی کمر تک آیا تو اس نے اپنے آپ کو زمین کی گرفت سے چھڑا کر سمندر کے سینے پر لٹا دیا۔ کرنوں کا لشکتا ہوا جال تا زحد نظر سمندر پر بچھا ہوا تھا۔ اب وہ کہاں جائیں گی؟ سمندر پر جال ہے۔ اس کے سوراخ بس اتنے بڑے ہیں کہ ان میں سے چھوٹی مچھلیاں اور حقیر مخلوق تو بآسانی نکل جائے گی مگر وہیل مچھلیاں؟ اب وہ کہاں جائیں گی؟ انہیں سانس لینے کے لیے کوئی جگہ نہ ملے گی۔ زیر آب کتنا عرصہ رہیں گی اور سمندر پر جال تنا ہے۔

دو ہفتے کی سالانہ چھٹی کے خاتمے میں کتنے روز باقی تھے؟ وہ فی الحال اپنے آرام کرتے ہوئے خالی ذہن میں اس بند فیکٹری کی بو داخل نہیں کرنا چاہتا تھا، جو اگلے ایک برس کے لیے پھر سے اس کا جغرافیہ اور آب و ہوا ہوگی۔ سمندر کے نمکین لب ابھی سے پیچھے ہٹ رہے تھے اور بریڈ فورڈ کی فیکٹری کا میکانکی جبڑا ہولے ہولے قریب آرہا تھا۔ علی کانت کی کیمپنگ اس کے لیے کچھ اتنی ثمرآور ثابت نہیں ہوئی تھی۔ یہاں خاندانی جمگھٹے زیادہ تھے اور اکلوتے جسم بہت ہی کم، اور جو تھے وہ اس کے خیمے میں چت لیٹنے کے بجائے باہر کھلی ہوا میں اوندھا لیٹ کر سن بیدنگ پر زیادہ مائل تھے۔

بادشاہ اور اس کی بلیوں کی رفاقت، مکھی مار مچھلیوں کے سروں میں سے نکلنے والی بو، انسان کتنی دیر برداشت کر سکتا ہے۔ زمان کو کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ بو اس کے تن بدن میں رچ گئی ہے اور بریڈ فورڈ واپسی پر وہ کسی طوائف کے قریب گیا تو وہ اسے کہے گی کہ ’’تم مچھلی ہو۔‘‘ ٹھیک ہے کل صبح واپسی۔ وطن کی جانب نہیں، برٹینیا بار کی بیئر اور گوری طوائفوں کی طرف۔

کیمپنگ کے استقبالیہ دفتر میں چوکیدار عورت فرش پر تن و توش ڈھیر کیے بیٹھی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں سستی وائن کی ایک بوتل تھی اور دوسرے میں ایک لمبی ڈبل روٹی جسے وہ اس سرخ مشروب کے ساتھ گھٹوروٹی کھا رہی تھی۔ شراب کا گھونٹ حلق سے اترتا تو وہ اکھاڑے میں اترنے والے کسی پہلو ان کی طرح اپنی وسیع ران پر دھپ جماکر مسرت کا اظہار کرتی۔

’’مجھے اپنا پاسپورٹ اور کرائے کابل چاہیے۔ کل صبح جانے کا ارادہ ہے۔‘‘

وہ بصد مشکل فرش سے علیحدہ ہوئی اور داخلے کے رجسٹر کے ورق پلٹنے لگی۔ ’’ہا۔۔۔ یہاں پر۔۔۔ پاکستانی۔۔۔ آج کی شب ملا کر کل چھ دن کا کرایہ ساڑھے چارسو پسیتے۔‘‘

بل وصول کرکے اس نے پاسپورٹ زمان کے حوالے کیا اور پھر فرش پر ڈھیر ہوگئی۔ وائن کی بوتل کو ایک بچھڑے ہوئے محبوب کی طرح بیتابی سے منہ لگایا اور ران پر دھپ جما کر ہنستی ہوئی کہنے لگی، ’’بادشاہ سے خوفزدہ ہوکر کیوں جا رہے ہو، کسی اور مقام پر خیمہ لگا لیتے۔ بدبخت جب یہاں آیا تھا تو کہتا تھا کہ مکھیوں سے پاک نظام رائج کرنے آیا ہوں۔ پانچ سال ہونے کو ہیں، جاتا ہی نہیں۔‘‘

’’آپ لوگ اسے زبردستی کیوں نہیں نکال دیتے؟‘‘

’’بس سستی کہہ لو، بزدلی بھی شاید کہ وہ دماغی طور پر ڈھیلا ہے۔ خواہ مخواہ کوئی ہنگامہ نہ کھڑا کردے۔ دوسری کیمپنگوں والے ہم پر ہنستے ہیں کہ دیکھو کس خبطی کو اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے۔۔۔ ہا! ختم ہوگئی۔‘‘ اس نے بوتل کے سبز شیشے پر ابلتی ہوئی آنکھیں رکھ کر یاس سےکہا۔

کیمپنگ کے دفتر سے نکل کر وہ اپنے خیمے کی طرف جا رہا تھاکہ جرمن جوڑے سے ملاقات ہوگئی۔ فرٹز حسب معمول ایک اصیل مرغا بنا سینہ پھلائے آگے آگے اور گنتھراس سے دو قدم پیچھے دست بستہ اپنی حالت میں مست، حکم کا منتظر، جیسے شارک کے پہلو بہ پہلو پائلٹ فش تیرتی ہے۔ زمان کو دیکھ کر انہوں نے کچھ کھسرپسر کی اور پھر فرٹز اکڑ کر بولا، ’’ہے پاکستانی! آج ہفتے کی شام ہے۔ ہم دونوں یہاں سے ۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر بینی ڈورن جا رہے ہیں۔ فن سٹی، سپانوی شیمپئن اور تمہارے لیے سنہرے بالوں والی لڑکیاں۔ نائٹ کلب اور ڈسکوز اتنے کہ اگر ایک میں بور ہو جاؤ تو دوسرے کی تلاش میں چلنا نہیں پڑتا۔ وہاں سے نکلو اور برابر کے دروازے میں داخل ہوجاؤ۔ چلو گے؟‘‘

’’فرٹز اپنی سپورٹس کار بھی لے جا رہا ہے۔‘‘ گنتھر نے خوشامدی ہیڈ کلرک کی طرح کہا۔

’’دو انسان اگر اکٹھے ہوں تو اسے رفاقت کا نام دیا جاتا ہے مگر تیسرا آجائے تو اسے جمگھٹا کہتے ہیں۔‘‘ زمان نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’ارے نہیں۔‘‘ فرٹز بولا، ’’دو انسانوں کی رفاقت ہو تو تیسرا جنم لیتا ہے۔‘‘ گنتھر اپنا ابلتا ہوا قہقہہ روکنے کی کوشش میں آبدیدہ ہو گیا اور بالآخر مجبور ہو کر پھوٹ پھوٹ کر ہنسنے لگا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ فرٹز نے پوچھا۔

’’فرٹز ضروری تو نہیں کہ دو انسانوں کی رفاقت سے تیسرا جنم لے لے مثلاً۔۔۔‘‘

’’بکواس نہیں کرو شوائن۔۔۔‘‘ فرٹز گرجا اور پھر زمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا، ’’چلوگے؟‘‘ زمان نے کچھ سوچ کر حامی بھرلی۔ ’’لیکن بارہ بجے سے پہلے لوٹ آنا پسند کروں گا، صبح جا رہا،ہوں۔‘‘ فرٹز نے ایک ابرو چڑھا کر کہا، ’’ہم خود بارہ بجے سے پہلے سو جاتے ہیں۔‘‘

’’سو جاتے ہیں فرٹز؟‘‘ گنتھر ایک لالچی بچے کی طرح ہمکنے لگا۔

’’تم ہمیشہ بکواس کرتے رہتے ہو شوائن۔‘‘ فرٹز کے پتلے لبوں پر پہلی مرتبہ مسکراہٹ تیری۔ ’’ہاں تو پھر شام کو۔۔۔‘‘ اور پھر وہ اسی ترتیب سے آگے بڑھ گئے۔

سپورٹس کار کی پچھلی نشست ایک قبر تھی۔ زمان گھٹنوں پر ٹھوڑی دبائے یوں پھنسا بیٹھا تھا جیسے کسی سارڈین مچھلی کو دوہرا کر کے ٹین میں پیک کر دیا جائے۔ فرٹز اور گنتھر کے کندھوں کے درمیان میں سےاسے ونڈ سکرین کا ایک لمبوترا حصہ نظر آ رہا تھا۔ کبھی کبھار سمندر کی ایک نیلی قاش دکھائی دے جاتی اور پھر فوراً ہی اس پر ساحلی چٹانیں حاوی ہو جاتیں۔

بینی ڈورن واقعی ’فن سٹی‘ تھا۔ ایک ایسا قصبہ جسے شمالی یورپ کی امیر اقوام نے اپنی شاموں کو سرخ کرنے کے لیے اس طرح ’’فتح‘‘ کیا تھا کہ اب وہاں مقامی باشندے خال خال ہی نظر آتے تھے اور کیوں نظر آتے؟ وہ تو ایک مکھی کی طرح گندے اور ثروت کے مظاہر میں رینگتے غربت کے کیچوے تھے۔ ان کی غلیظ موجودگی سے رنگینیوں کی لینڈسکیپ پر دھبے پڑجاتے تھے۔ چنانچہ تمام سٹورز، کلب، ڈسکوز اور ساحلی بنگلے سویڈز اور جرمنوں کی ملکیت میں تھے اور مقامی لوگ قصبے سے باہر واقع سلمز میں سمٹے ہوئے تھے، تھیلے میں بند مکھیوں کی طرح۔

ایک دیوار پر ’ڈسکو سپرسیکس‘ کانیون سائن بھڑک رہا تھا۔ فرٹز نے کار ایک جھٹکے کے ساتھ منجمد کردی۔ دیوار کے پہلو میں سے ایک ہسپانوی بلیوں کی سی آہستہ خرامی سے ان کی جانب آیا۔ ’’ڈسکو میوزک۔ فری شیمپئن اور گرلز۔۔۔ دو سو پیستے فی کس۔‘‘

’’گرلز؟‘‘ فرٹز نے دانت پیس کر کارسٹارٹ کردی۔ اس کے بعد متعدد جگہوں پر کار روکی گئی مگر نسخہ وہی تھا۔ ’’ڈسکو میوزک۔ فری شیمپئن اورگرلز۔۔۔ اتنے سو پسیتے۔‘‘ فرٹز نہایت غور سے مینو سنتا اور ’’گرلز‘‘ کا ڈنک کھا کر جبڑوں کو بھینچ کر کسمساتے ہوئے کار سٹارٹ کر دیتا۔

بالآخر وہ قصبے سے ہٹ کر ایک نیم تاریک گلی میں داخل ہوئے۔ یہاں پر مینو کو پسندیدگی کی نظر سےدیکھا گیا یعنی ’’ڈسکو میوزک، فری شیمپئن اور صنفِ موافق۔۔۔‘‘ فرٹز نے کار پارک کی اور زمان کو بڑی ملائمت سے کہنے لگا، ’’تم ذرااس کار کے پاس رکو، ہم دیکھ کر آتے ہیں کہ کیسی جگہ ہے۔ قریباً نصف گھنٹے کے بعد وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے باہر نکلے، ’’فضول جگہ ہے۔ کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں۔‘‘

اسی قسم کی ایک اور ڈسکو کے باہر فرٹز نےایک مرتبہ پھر زمان کو کار کے پاس چھوڑا اور معائنے کی خاطر اندر چلے گئے۔ زمان کار کے بونٹ پر بیٹھا اکڑتا رہا۔ ایک گھنٹے کے بعد جب وہ باہر آئے تو فرٹز زمان پر پھٹ پڑا، ’’تمہیں معلوم نہیں کہ اس کار کی کیا قیمت ہے؟ شاید تم سے بھی زیادہ۔۔۔‘‘ گنتھر نےاس کے کندھے پر آہستہ سے ہاتھ رکھا تو وہ ایک دم نرم پڑ گیا، ’’میرا مطلب ہے بونٹ پر بیٹھنے سے خواہ مخواہ ڈینٹ پڑجائے گا۔۔۔ یہ جگہ بھی اتنی خاص نہیں کہیں اور چلتے ہیں۔‘‘ رات کے بارہ بجے تک وہ پانچ مختلف ڈسکوز میں گئے اور انہیں ناموزوں قرار دے کر واپس آگئے۔ البتہ ہر مرتبہ وہ پہلے سے زیادہ ہنستے ہوئے اور جھومتے ہوئے باہر نکلتے۔

’’پھر کسی روز قسمت آزمائیں گے پاکستانی۔‘‘ فرٹز نے آخری ڈسکو میں سے نکلتے ہوئے خمار آلود آنکھوں کے پپوٹے چڑھاتے ہوئے کہا، ’’آؤ واپس چلیں۔‘‘

علی کانت واپسی پر پچھلی نشست کی قبر میں دھنسے ہوئے یکدم زمان پرانکشاف ہوا کہ اسے ہمراہ لے جانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ فرٹز کی قیمتی سپورٹس کار کی چوکیداری کے فرائض انجام دیتا رہے۔۔ شوائن۔

خوشبو مجھے بلاتی ہے۔ میرا پیٹ خالی ہے اور میں کھنچا چلا جا رہا ہوں۔ میں بھنبھنا رہا ہوں اور یہ بھنبھناہٹ میرے بازوؤں میں سے خارج ہو رہی ہے۔ میں اڑ رہا ہوں۔ میرے پاؤں کہاں ہیں؟ پیٹ کے ساتھ۔ پیٹ جو خالی ہے۔ میں خود ایک مکھی ہوں۔ میں اکیلا نہیں ہوں۔ میرے گرد مکھیوں کا ایک انبوہ ہےمگر ان کے چہرے انسانی ہیں اور دھڑ مکھیوں کے۔ ہر ایک کے چہرے پر کرب کا ایک لفظ کھدا ہوا ہے جس کے اپنے کوئی معانی نہیں مگر ان سب چہروں کے لفظ مل کر کرب کی کریہہ تصویر بنا رہے ہیں۔ ان کی لٹکتی ہوئی انسانی زبانیں خوراک کی متلاشی ہیں۔ خوراک جو خوشبو کی پاگل اڑان سے ہی حاصل ہوگی۔ ہم خوشبو کے اسیر ہیں۔ ہم خوشبو کے پجاری ہیں اور اس راستے پر گامزن ہیں جس کے خاتمے پر وہ مندرہے جس میں خوراک کا دیوتا ہے۔ ہم کھنچے چلے جارہے ہیں اس ٹریپ کی جانب جس میں سے خوشبو آرہی ہے، بادشاہ کے بنائے ٹریپ کی طرف۔

لاکھوں انسانی چہرے ہیں کھوکھلے، پچکے ہوئے جو اڑان میں ہیں۔ بھوکے پیٹ سے ٹانگیں چپکائے خوشبو کے راستے پر مائل سفر جس کے اختتام پر خوراک ملنے کی امید ہے۔ فنا کا سرد خوف تحلیل ہو رہا ہےاور پیٹ بھرنے کی امید راستے میں بچھی جاتی ہے۔۔۔ میں مست ہوں۔ یہ جہان کون ساہے اور کن ساعتوں کی واردات مجھ پر بیت رہی ہے۔ اک عالم خواب ہے، یا میں سچ مچ ایک مکھی میں بدل چکا ہوں۔ دوسرے کوٹھے پر کھڑے درباری کیوں اپنی ڈور نہیں توڑتے۔ سوکھتے لبوں اور پچکے جسموں والے لاکھوں بچے منتظر ہیں۔ خوشبو مجھے بلاتی ہے۔۔۔ بلاتی ہے۔۔۔ اور بادشاہ کا سر ذہن کے مینٹل پیس پر سجا مسکرا رہا ہے۔

زمان نے کروٹ بدلی۔ باہر رات تھی، سمندر خاموش تھا۔ اس نے اٹھ کر سگرٹ سلگایا۔ بو تھی، صرف مچھلی کی نہیں، بلکہ ایک تازہ اور قے لانے والی بو جیسے تازہ ذبح شدہ بکرے کے گوشت میں سے ہمک آتی ہے۔ گوشت پر چھری چلنے کے فوراً بعد جو ہوا اڑاتی ہے ویسی، بلیاں رو رہی تھیں۔ ایک اور آواز بھی تھی۔ بکرے کے نرخرے میں سے خارج ہونے والے موت کے خراٹوں ایسی۔ حیوانی آواز۔ بے پناہ بو تھی۔ سگرٹ ختم کر کے زمان نے سلیپنگ بیگ کو اپنے چہرے پر کھینچا اور بو کی اس بوچھاڑ میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔

باہر دن چمک رہا تھا۔ زمان پچھلی شب کی نیم خوابی کے باعث خاصی دیر تک سویا رہا اور جب اس کی آنکھ کھلی تو باہر دن چمک رہا تھا۔ اس نے انتہائی عجلت میں اپنا سامان رک سیک میں ٹھونسا اور خیمہ اکھاڑنے کی نیت سے باہر آگیا۔ باہر دن چمک رہا تھا۔ ساحلِ سورج پر اتنی تیز روشنی اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ پہلی میخ کو زمین سے علیحدہ کرتے ہوئے لا شعوری طور پر اس کی نگاہ بادشاہ کے خیمے کی طرف چلی گئی۔ پردہ گرا ہوا تھا۔ اس کا اخبار خیمے کے باہر رکھی کرسی پر ان کھلا پڑا تھا۔ اگرچہ ہوا تھی مگر جھنڈا نما چیتھڑا لہرا نہیں رہا تھا۔ بلیاں بھی غائب تھیں۔ بادشاہ کے ٹریپ ویران تھے۔ ان پر مکھیوں کے غول نہ تھے۔

بوڑھا ہر صبح سات بجے اپنی بلیوں سمیت خیمے سے باہر آکر اپنی کرسی پر براجمان ہو جایا کرتا ہے۔ آج دن چڑھے تک جانے اندر بیٹھا کیا کر رہا ہے۔ یا شاید کسی کام کے سلسلے میں شہر چلا گیا ہو مگر وہ تو صبح سے شام تک صرف ایک کام کرتا تھا۔ مکھیوں سے بھرے تھیلوں کو گھسیٹ کر سمندر میں ڈبونے کا۔۔۔ بہرحال۔۔۔ زمان نے لاپروائی سے کندھے سکیڑے اور میخیں اکھاڑتا رہا۔ خیمہ لپیٹ کر اس نے رک سیک پر باندھا اور اسے اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ بادشاہ کے خیمے کا پردہ ابھی تک گرا ہوا تھا۔ زمان باہر جانے کے لیے چند قدم چلا اور پھر کچھ سوچ کر واپس آگیا۔ روانگی سے پیشتر بادشاہ کو خدا حافظ ضرور کہنا چاہیے، آخر وہ اتنے روز اس کی ہمسایگی میں رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر خیمے کا پردہ سرکایا اور اندر جھانکا۔

وہیل زیر آب جاتی ہے موت سے خائف ہوکر۔ مہیب پانیوں میں روپوش ہو جانا چاہتی ہے۔ مگر اسے سانس لینے کے لیے کبھی نہ کبھی سطح آب پر آنا پڑتا ہےاور سطح پر ایک آخری نیزہ اس کا منتظر ہوتا ہے اور آخری نیزہ اپنی لشکتی ناک اس کے جسم میں گاڑ دیتا ہے۔ وہیل کا جثہ آخری مرتبہ ایک مخصوص رنگ کی سرخی میں رنگنے لگتا ہے، اور اس غروب کو ماہی گیر سرخ پھول کہتے ہیں۔

اندر بو تھی اور بھنبھناہٹ تھی۔


ایک کونے میں بلیوں کا ہجوم خاموش بیٹھا زبانیں چاٹ رہا تھا۔


اس کی بتیسی پر ماس نہ تھا مگر وہ مسکرا رہا تھا اور نقلی دانت حلق میں پھنسے دکھائی دے رہے تھے۔


ہڈیاں ننگی تھیں۔ لوتھڑے لٹک رہے تھے۔ اور جہاں گوشت باقی تھا اس پر گاڑے ہوئے دانتوں اور ادھیڑتے ہوئے پنجوں کے خون آلود سرخ نشان ثبت تھے۔


اور لمحۂ آخر کی پہچان نہ کرنے والی ہڈیوں اور گوشت پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔


اور بادشاہ کا مسخ شدہ چہرہ زمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔


بادشاہ ننگا تھا۔


لیڈیز اینڈ جنٹلمن! دی کنگ از ڈیڈ!