پرانے دشمن

اک سورج ہے جو شام ڈھلے مجھے پرسا دینے آتا ہے
ان پھولوں کا جو میرے لہو میں کھلنے تھے اور کھلے نہیں
ان لوگوں کا جو کسی موڑ پر ملنے تھے اور ملے نہیں
اک خوشبو ہے جو بستی بستی میرا پیچھا کرتی ہے
اور اپنے جی کی بات بتاتے ڈرتی ہے
اک دریا ہے جو جنم جنم کی پیاس بجھانے آتا ہے
اور انگارے برساتا ہے
اور یہ سورج اور یہ خوشبو اور یہ دریا
مری آن بان کے بیری ہیں
سب میری جان کے بیری ہیں