پورٹریٹ

زمین سے لے کر آسمانوں تک کے دْھواں دْھواں منظر کو دیکھ جب وہ مضطرب ہو جاتی ، اور رات ایک انجانے خوف سے سہمے ہوئے گزر جاتی ۔ تب ہوتا یہ تھا کہ اْس کی
بوجھل آنکھوں میں صْبح کی سپیدی اتْر آتی تھی اور شام اْداس اْداس سی سیاہ رنگت لئے رات کی سیاہی سے جا ملتی تھی ۔
ہر روز کْچھ ایسا ہی ہوتا تھا ۔ ایک نیا درد سینے میں دبا کر وہ سو جایا کرتی تھی ۔ کلینڈر کی ہر تاریخ پر سْرخ دائرے کا رنگ گہرا ہو جایا کرتا تھا اور سبز دائرے کی تاریخیں مدھم مدھم سی ہوئی جاتی تھیں ۔ معلوم نہیں ، کب اور کیسے تہذیب کی سوندھی سوندھی خوشبوؤں والی گلیاں ،سڑک سے جا ملیں ۔ اسے جوانی کا وہ زمانہ یاد آیا جب وہ غرارہ پہنے ، گرمی کی تپتی دوپہریا میں ، اپنی خوبصورت جوتیوں کو مٹی رنگ گلی کی سہیلی بنا کر ، کولتار کی نئی سڑک پر نکلی تھی تو جْوتیاں سڑک کے پگھلتے کولتار سے چپک چپک سی گئی تھیں ۔ پھر ہْوا یہ کہ سڑک بہت ڈراؤنی صورت لئے سامنے آئی ۔
۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ گر گے اسی زمانے سے گْرگابی کو کچھ زیادہ پریشان کر نا شروع کیے ہوں ۔
’دولا مولا ‘ کا ’ دْولا ب ‘ بڑے دالان میں اب کہاں ؟
ہر تاریخ رفتنی ۔
سنہری تہذیب کا روحا کنواں ، گزشتنی ۔
حدود سے تجاوز کرنا بھی ہمیں فنا کے کتنے قریب لے آیا ہے ۔
۔۔۔
وہ اکثر عرق گْلاب میں گْھل مل چکے سفید چْونا کو ململ کے پھٹے ہْوئے دْوپٹّے سے چھانتے وقت سوچا کرتی , یہ سفیدی اور سیاہی کے رشتے بھی کتنے گہرے ہوتے ہیں ۔ کبھی ختم نہیں ہوتے اور وہ جو عبا والے ہیں سفید چھوروں کے غْلام بن کر ، رکْوع کی حالت میں ، کْچھ اس طرح مغرب کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں ، کہ اْنہیں نہ تو عالم دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی رب العالمین !
سترہ بیویوں کے پینتالیس بیٹوں کی شاہی کْرسیاں ہر دن اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور ماضی کی طرف پیٹھ کر کے مستقبل کی فکر میں جْٹے مٹی بدن شہزادے ، سْنہری تہذیب کے ورق ورق ، پرت پرت کو مٹانے میں لگے ہیں ۔ صحرائی دولت کے مرکز پر سب کی نگاہیں ٹکی ہیں ۔ مگر یہ شہزادے ، اپنی آنکھوں میں ایک الگ قسم کا خمار اور سرور لئے لبوں پر رقص کرتی راگنی کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھے چلے جا رہے ہیں ۔
۔۔۔۔
سْنہری تہذیب کی ہر تحریر کے ساتھ چلنے والے فرزند کے ہمراہ پاؤں کے چھالے اور پپڑ ائے ہونٹ چلتے تھے مگر آج ؟ ۔
او میرے روحا کنواں ۔
او مور سنگی اب تو گھر ما ، نہ تو انگنا ہے اور نہ کنواں ۔
وہ جو ایک گاؤں تھا زمانہ جاہلیت میں جہاں ہر سال میلہ لگا کرتا تھا اور بے سرو سامان / کمزور کے جنوں رنگ عشق کو اک معجزہ اعتبار دے جاتا تھا ۔ اب وہ گاؤں ، گاؤں نہ رہا
یوماً فیوماًتاریخیں مٹ رہی ہیں اور نئی تاریخ کی عالی شان عمارت کھڑی ہو رہی ہے ۔
ہر شجر کی شاخیں ٹوٹ رہی ہیں ، سبز پتے زرد ہو رہے ہیں ، اور اپنی چہچہاہٹوں کو کائنات کا حصہ بنانے والی گوریّا اپنی قبر کو ساتھ لئے اڑتی پھر رہی ہے ۔
گوریّا
بیٹیاں
اک طرف کالے کوؤں کی کائیں کائیں
دوسری طرف مائیں مائیں ۔
یہ چہار سْو پھیلتے اندھیاروں کا قد ہر روز کاہے بڑا ہْوا جائے ہے جی ۔۔۔۔۔؟
کبھی روشنی کی گود میں اندھیرا تو کبھی اندھیرے کی گود کے ایک کونے میں دْبکی ہوئی ، سمٹی ہوئی روشنی کی سسکیاں اور ہم ہیں کہ ہر دن گود بھرائی کا جشن مناتے رہتے ہیں ۔
سنتے ہیں اندھیرے کی جب موت ہوتی ہے تو ایک نئے اْجیارے کا جنم ہوتا ہے اور جب اْجلے اْجلے سے ابدان کی بہت تیزی سے موت ہونے لگتی ہے تو رات ، لمبی اور گہری سیاہی لئے سارے عالم کو ڈھانپنے کی جْگت میں لگ جاتی ہے ۔
۔۔۔
سْلطانی و قہّاری کے مظاہر میں اتنی دیری کاہے کرو ہو جی
کہانی نے انگنائی میں پھر سے انگڑائی لی ۔
اکثر جب وہ بڑے دالان میں تنہا ہوتی اور ٹی ۔ وی پر خبریں دیکھتی ۔ سْنتی تو اْس کی زبان سے لہْو لہْو منظر دیکھ , نا چاہتے ہوئے بھی اس طرح کے جمْلے زبان سے ادا ہو جاتے کہ صندل باہیں جو سوتے جاگتے تکیہ ہوا کرتی تھیں وہ تتلی کی طرح اک نیا منظر لکھ پھْر سے اڑ گئیں ۔ تتلی ہو یا سہیلی وہ زیادہ عمر لے کر کہاں آتی ہے شاید کہ اس کی وجہ رنگریز سے ان کا گہرا رشتہ رہا ہو ۔ شاید کہ اس کی وجہ باغیچہ کے بعض پھولوں میں تیزی سے رچتی بستی جا رہی زہریلی خوشبو رہی ہو ۔ اب تو باغیچہ کے مخملی احساس والے نقوش بھی تاریخ کی طرح مٹتے جا رہے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ راجہ نے ہر باغیچہ کو درباریوں کے حوالے کر دیا ہے ۔
راگ درباری ۔
درباری راگ ۔
ؒ ُ سروں کی بڑھت تان پلٹا اور مینڈھ کے معنی تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں اور چھالیا ؟
اس کے معنی بھی بدل گئے ہیں کہ موت کی تجارت میں بہت مہنگی ہو گئی ہے سْپاری ۔
۔۔۔۔
گولیوں کی آوازوں سے سارے پنچھی جاگے ہیں رے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
فاطمہ ! اپنی بیٹی عالیہ کو پیٹھ پر باندھ لو ۔ آدمی بارودی بدن لئے درس گاہوں میں گھوم رہے ہیں
خالہ امّی کی آواز خود کو خود سے آزاد کرتے ہوئے حْجرے سے باہر نکلی ۔
سفید رنگ کے ساتھ نیلے بارڈر والی ساڑھی سے لپٹی ، چمکتی آنکھوں والی خالہ امّی تیز تیز ہاتھ ہلاتے ہوئے آنگن کی طرف لپکی آئیں ۔ ان کی گفتگو کا دائرہ ، جو کبھی جانتا ، کوٹھی ، باورچی خانہ ، اور نعمت خانہ کے چھوٹے سے دروازے کو بند کرتے ہوئے مہمان خانہ تک پھیل جایا کرتا تھا آج پاندان میں سمٹا ہوا ہے ۔ انہوں نے جھینی بینی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ باہر پھلواری میں ہر رنگ کے اونچے چھوٹے قد والے اشجار اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے تھے ، بہتے دریا کی نمی پا کر مدمست تھے مگر خبروں کی سرخیاں بن چکا آدمی ۔۔۔۔؟
آدمی نے گاؤں کے اس تالاب کا پانی پی لیا تھا جہاں اکثر رات گئے ایک خونخوار شیر آیا کرتا تھا ۔ شیر نے تو کبھی گاؤں کی الگ الگ درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے معصْوم بچوں کا کْچھ نہیں بگاڑا مگر مر بْھکّا کی محبْوب غذا الف سے اللہ اور ای سے ایشور پڑھنے والے بچّے بن گئے ۔
خالہ امی کے شوہر وجاہت حسین کو دہشت گرد پچھلے برس ڈکار گئے تھے ۔ تب سے وہ میرے ساتھ تھیں ۔ قدرت نے انھیں نہ تو بیٹے دئے اور نہ ہی بیٹی ۔ وہ بالکل اکیلی ہو گئی تھیں ۔ جب جسم حوادث کا آئینہ بن جاتا ہے تو لفظ اور زبان دونوں شور کرتے ہیں ۔
گالیوں اور کوسنوں کی رفتار لئے خالہ امّی ، واپس میری پیٹھ سے چپکی عالیہ کے قریب آ گئیں ۔
اف آج کی فاطمہ اور عالیہ اب درس گاہ کیسے جائیں گی ۔؟؟
بیٹیاں تو دہشت گرد نہیں ہوتیں پھر بیٹیوں کو ماں کی کوکھ میں کیوں مار دیتے ہیں ۔ ؟
اچھا ہوا میں نے بچے نہیں جنے
بانجھ ۔ بانجھ کی آوازیں پیچھا کرتی رہیں اور تْمرے خالو بھی ایسے تھے کہ دوسری عورت نہیں لائے
ما فوق الفطرت کی ملکہ قادوسی چڑیا اب کاہے نہ آوے ہے جی خالہ امّی !، دیکھو نا گورے چھورے کو ، اندھیارے کی تجارت میں لگے ہیں اور قاضی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ہوئے جائے ہیں ۔
عالیہ جو بہت دیر سے ہماری باتیں سن رہی تھی ،خالہ امی کے حجرہ کی طرف دبے قدموں سے جانے لگی ۔ جہاں فرش پر تراشا ہوا کھوپرا ، چھالیوں کی پرتیں ، چاندی کی طشتری میں رکھے زعفران اور خالہ امی کی انگشتریاں پڑی تھیں ۔
۔۔۔۔
باہر پھلواری کی طرف سے آوازوں کا شور ہم سب کا پیچھا کر رہا تھا ۔
مارون عبّاد !
مارون عبّاد !!
یس لہو کمال من ھْوا کاملاً
وہ جو بڑے کمالات کا تھا بے کمال ہو گیا ۔
آدمی اب آدمی نہ رہ گئل
منیشی منیشی لاگا لیڑو
او نا دیوڈا
گلی کے مقابلے میں سڑک اب کتنی ڈرا ؤ نی ہو گئی ۔
آج کے گرامیر اولی گولی شہر راستہ تْولنا بھیاوہ ہوئی گیچھے
۔۔۔
چھالیا کے بدلتے رنگ نے چھاتم چھاتی کے دھواں دھواں منظر کے درمیان چھاتی کے کواڑ کھول کر رکھ دئے تھے اور خالہ امی ، مجھے اور عالیہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹے چاندی کے پاندان کو غور سے گھْور رہی تھیں ۔