بند وبست
چشم زدن میں اس نے اپنا بوسیدہ جمپر اتارا اور اپنی دونوں ٹانگوں کو پھیلا کر جمپر کو ران کے بیچوں بیچ رکھ کر یوں رگڑا جیسے کچھ پونچھ رہی ہو۔ پھر اس نے جمپر کو الگنی پر ٹانگ دیا اورپیڑ کی طرح سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ وہ مادر زادبرہنہ تھی۔ آنگن میں بلب روشن تھا جس کی روشنی میں اس کا آنبوسی بدن چمک رہاتھا۔ شوکت کی نگاہیں اس کے ننگے بدن پر الجھ کر رہ گئیں ۔ اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی ۔ اس کا پائجامہ کہاں گیا ؟فلیٹ میں اس وقت اور کون ہے ؟ گلبدن کہاں گئی ؟ جمال کہاں ہے ؟ طرح طرح کے سوالات شوکت کے ذہن میں ڈنک مارنے لگے ۔ پھر اسے خیال آیا...... اس کے پستان اتنے بھاری کیونکر ہوگئے ؟ کیا اس میں دودھ بھر گیا ہے ؟ اور اس کا پیٹ آگے کو نکلتا ہوا کیوں دکھائی دے رہا ہے ؟ مگر یہ کیسے ہوسکتاہے ؟ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے ؟ کل تک توچڈی پہن کر سڑک پر دوڑتی پھرتی تھی ۔ دکان سے سودا سلف لاتی رہتی تھی یا اپنے فلیٹ کے دروازے پر بیٹھ کر اپنی کالی سوکھی ٹانگوں کو باربار کھجلاتی جاتی اور اپنے میلے الجھے بالوں میں جوئیں تلاش کرتی پھرتی تھی۔
شوکت کی نگاہیں اس کے چمچماتے سیا ہ بدن پر پڑیں جس سے پسینہ پھوٹا پڑ رہا تھا ۔ اسے اس بات کا اطمینا ن تھا کہ وہ اسے نہیں دیکھ پائے گی کیونکہ وہ اجالے میں تھی اور یہ اندھیرے میں ۔ وہ نیچے تھی یہ اوپر تھا۔ اس کی نگاہیں اپنے جسم کو نہاررہی تھیں اور اِس کی نگاہیں اُس کے جسم کو ۔
وہ ہینڈ پمپ سے پانی بھررہی تھی ۔کیا وہ اس وقت نہائے گی ؟ رات کے نوبجے اسے غسل کی حاجت کیوں ہوئی ؟ کیا اسے بہت زیادہ گرمی لگ رہی ہے ؟ یا کوئی اوربا ت ہے ؟ کیا اس وقت فلیٹ میں گلبدن کا شوہر جمال موجود ہے ؟ اس نے پھر سوچا۔ گلبدن کہاں ہے ؟ کہیں گھومنے گئی ہے ؟ پکچر یا کہیں اور ؟ کیا گلبدن کو یہ سب دکھائی نہیں دیتا؟ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہوئی لڑکی کو شوہر کے ساتھ گھر میں اکیلا چھوڑ کر اکثر غائب رہتی ہے ۔ نوکری کرتی ہے، گھر کا خرچ چلاتی ہے اورجمال پڑا پڑا عیش کر تاہے ۔ شادی کو دس سال ہوچکے تھے مگر گلبدن کی گوداب تک سونی تھی ۔ اس نے اپنے پیسوں سے ایک جنرل اسٹور کھولا تھا مگر جمال اپنی آرام طلبی کے باعث اسے چلانہیں پایا ۔ گلبدن کی نظر میں اس کی قیمت دوکوڑی بھر بھی نہیں تھی ۔ اکثر وہ جمال کو زور زور سے ڈانٹتی ۔ شوکت اپنے برآمد ے کی کھڑکی سے اس کے آنگن میں جھانکا کرتا ۔ اس کھڑ کی پر ایک دبیز پردہ پڑا تھا مگر جب کبھی ہوابند ہوجاتی یا مخالف سمت میں چلنے لگتی تو اس پردے کو کنارے کر دیا جاتا۔ جب تک اس کی بیوی زہرہ جبیں گھر میں موجود رہتی وہ نیچے آنگن میں کھلنے والی کھڑکی کی جانب سے بے نیاز رہتا ، مگر جیوں ہی زہرہ کسی کام سے باہر جاتی ، وہ موقع پا کر گلبدن کے آنگن میں جھانکنے لگتا۔ اکثر اسے گلبدن دکھائی دے جاتی ۔ کبھی وہ غسل خانے سے نکل رہی ہوتی ۔ کبھی کچن میں مشغول ہوتی یا پھر آفس جانے کی تیاری کررہی ہوتی اورجمال کسی زر خرید غلام کی طرح اس کے پیچھے پیچھے لگارہتا اور یہ لونڈیا، جس کا نام سبزہ تھا، کوئی سات آٹھ برس کی تھی جب پہلے پہل اس گھر میںآئی تھی ۔ وحشت زدہ سی ، پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو دیکھتی پھرتی۔ چلا چلا کر بات کر تی۔ اسے باتھ روم سے وحشت ہوتی تھی ۔ صبح سویرے گھر کے پاس والے میدان میں فارغ ہوآتی۔ کبھی کبھی صرف فراک پہنے ہوتی ۔ بار بار چڈی اتار نے کی زحمت کون مول لے ؟مگر جب گلی کے لونڈے اس کے گھر کا چکر لگانے لگے تو گلبدن نے ٹھوک ٹھاک کر اسے قاعدے کا بنایا اور اس کا باہر نکلنا بند کردیا۔
آنگن سے ملحق باتھ روم تھا مگر سبزہ کو آنگن میں بیٹھ کر ننگے بدن نہانا پسند تھا اور اسے اس کی آزادی بھی حاصل تھی ۔ گلبدن تو آفس چلی جاتی اورجمال کہیں اورنکل جاتا۔ وہ گھر کا دروازہ اند ر سے بند کرتی اور آرام سے آنگن میں بیٹھ کر اپنے کالے بدن کو رگڑ رگڑ کر اجلا کر نے کی کوشش کرتی رہتی ۔ اس حقیقت سے بے نیا ز کہ کوئی اسے مسلسل گھورے جارہا ہے اور اس کے بدن کے تمام زاویوں کو اپنی نگاہوں کے فیتے سے ناپ رہا ہے ۔
یہ دومنزلہ مکان شوکت کا تھا۔ فرسٹ فلور پر وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا اور گراؤنڈ فلور پر گلبدن کرایہ دار تھی ۔ گراؤنڈ فلور پر ہی اگلے حصے میں شوکت نے ایک سائبر کیفے کھول رکھا تھا جس میں کمپیوٹر ٹریننگ سینٹر بھی تھا ۔اس سائبر کیفے میں پانچ ملازم تھے ، ایک منیجر بھی تھا۔ شوکت بیشتر اوقات کاؤنٹر پر بیٹھتا مگر گاہے گاہے اوپر فلیٹ میں آجاتا۔ ایک دن گرمی سے پریشان ہوکر اس نے پردہ ہٹایا تودیکھا کہ وہ نہ صرف عریاں ہوکر نہارہی تھی بلکہ اپنے نوخیز بدن سے کھیل بھی رہی تھی ۔ وہ اپنے آپ میں اس قدر مگن تھی کہ شوکت کی جلتی ہوئی نگاہوں کو وہ محسوس ہی نہ کرسکی ۔ پہلے پہل تو اسے حیرت ہوئی کہ اتنی چھوٹی سی بچی کو اپنے جسم کا گیان کیونکر حاصل ہوگیا ۔ مگر فوراً ہی اسے اپنا بچپن یاد آگیا۔ خود لذیت ایک آفاقی سچ ہے ۔ پیدا ہونے والے ہر بچے میں تجسس کا مادہ ہوتاہے ۔ اور اس کا تجسس جسم کی بھول بھلیوں سے شروع ہو کر جسم کے چکر ویو میں ختم ہوجاتاہے ۔
شوکت نے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے نوبجنے جارہے تھے۔ زہرہ بچوں کو لے کر گرمی کی چھٹیاں منانے میکے گئی تھی ۔ کاش ! یہ لڑکی جمال کے بجائے اس کی نوکرانی ہوتی اور پھر ..... اس خیال کے آتے ہی اس کے سارے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی ۔ مگر زہرہ نے آج تک کسی Maid Servant کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ وہ اس قدر سگھڑتھی کہ گھر کی ایک ایک ضرورت کو خود سمیٹ لیتی ۔ وہ زہرہ کا موازنہ گلبدن سے کر تا تو اسے یک گونہ خوشی حاصل ہوتی ۔ مگر اس وقت زہرہ گھر پر نہ تھی ۔ ایسے میں اگرچھم سے وہ آجائے تو کیا ہو ؟ مگر سبزہ کا خیال آتے ہی اس کا تیزی کے ساتھ اُبھر تا ہو ا بدن بھی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ اس نے چپکے سے آنگن میں جھانک کر دیکھا ۔وہ نہا کر جاچکی تھی مگر اس کا جمپر الگنی پر ٹنگا ہلکی ہلکی ہوا میں ہلکورے بھر رہا تھا۔ شوکت کے جسم میں چنگاریاں دوڑ رہی تھیں ۔ اگر اس وقت زہرہ گھر پر ہوتی تو .....وہ روز اسے فون کر تا، اسے جلد از جلد واپس آنے کو کہتا مگر اس کا ایک جواب ہوتا۔
’’اتنے دنوں بعد آئی ہوں ۔ بچوں کا بھی دل لگ رہا ہے ۔‘‘ پھر وہ دھیرے دھیرے سے ہنس دیتی ۔ شوکت کو اس کی ہنسی سن کر جلترنگ بجنے کا احساس ہوتا۔ زہرہ کا بدن ابھی تک وینا کے تاروں کی طرح کسا ہو اتھا۔ وہ رسیور کا بوسہ لیتا ادھر سے آواز آتی ۔
’’اگر اتنی ہی بے چینی ہورہی ہے تو انٹر نیٹ پر ’کچھ ‘ دیکھ کر دل بہلا لیجئے ‘ یا پھر ‘ جے سنتوشی ماں ‘ کا سی ڈی ‘ وہ جھنجھلا جاتا اور رسیور کو کریڈل پر پٹک دیتا۔
جمال سے اس کے تعلقات نہیں کے برابر تھے ، البتہ گلبدن اس سے بڑی بے تکلفی کے ساتھ پیش آتی اور اسے نوشے بھائی کہہ کر مخاطب کر تی مگر جب زہرہ موجود ہوتی تو تو بس آنکھوں ہی آنکھوں میں گفتگو کرکے چلی جاتی ، لیکن اس وقت تو سبزہ اس کی آنکھوں میں بسی ہوئی تھی ۔ اگر جمال نے اسے راستے پر لگادیا ہے تو پھر اسے راہ پر لانا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ مگر اس بے وقوف نے احتیاط کیوں نہ برتی ؟ آج کل توفیملی پلاننگ کے بے شمار طریقے رائج ہیں ۔لگتاہے سب کچھ اچانک ہوگیا۔ ہوسکتاہے کہ وہ دونوں فلیٹ میں ہوں، گلبدن آفس گئی ہو ۔ دوپہر کا وقت ہو اور وہ بغیر چڈی پہنے سورہی ہو ۔ نیند کے عالم میں اس کی فراک جگہ سے ہٹ گئی ہو ۔ جمال کی نظر اس پر پڑی ہو اوروہ پھر خود پر قابو نہ رکھ سکا ہو ۔ ایسے ہیجانی مرحلے میں سوچنے سمجھنے اور احتیاط برتنے کا موقع کہاں ملتاہے اور وہ بے چاری بن ماں کی بچی ...... اپنے گاؤں سے دور ..... اس فلیٹ کی چہار دیواری میں قید .... جمال نے اسے دھمکایا ہو کہ یہ بات کسی کو نہ بتانا اوروہ مارے ڈر کے چپ رہ گئی ہو اور پھر یہ کھیل روز کا معمول بن گیا ہو۔ مگر گلبدن کی نگاہیں اس کے بدن میں ہورہی تبدیلیوں کو کیوں نہیں محسوس کررہی ہیں؟ کیا وہ اپنے جاب میں اس قدر مشغول ہے کہ اسے ان سب باتوں کی جانب دھیان کا موقع ہی نہیں ملتا؟ وہ اکثر جمال کو دیکھتا ۔ نماز کے وقت سر پر ٹوپی ڈالے مسجد کی طرف جارہا ہوتا۔ کیا جمال پر اس کا شک بے جاہے ؟ دیکھنے میں تو بہت سیدھا سادہ ، شریف اوربے ضرر سا انسان معلوم ہوتاہے ۔بیوی کی کمائی کھانے و الے یوں بھی دبّو ہوتے ہیں۔ اس کے اندر اتنی ہمت کہاں سے پیدا ہوگئی ۔ اگر گلبدن کو اس کی بھنک بھی مل گئی تو شاید وہ جمال کو دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دے ۔ تو پھر وہ کون ہوسکتا ہے ؟ سبزہ تو اب فلیٹ سے باہر نکلتی نہیں ہے اور اگر کبھی باہر جاتی بھی ہے تو گلبدن کے ساتھ اور پھر یہ بھی ہے کہ باہر کا کوئی شخص شاذ و نادر ہی ان کے یہاں آتا ہے ۔ تو کیا اسے کوئی مرض لاحق ہوگیا ہے ؟ کوئی ایسا مرض جس میں پیٹ پھول جاتاہو ۔ لیکن اس کے پستان ؟
اس نے فلیٹ کو تالا لگایا اور نیچے اترآیا۔ سڑک پر چہل پہل کم ہوگئی تھی ۔ اس نے دیکھا کہ جمال اپنے دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے صرف لنگی اورگنجی پہن رکھی تھی ۔ شوکت نے سوچا۔ کیا اس نے ابھی سبزہ کے ساتھ قربت فرمائی ہے ؟ کیا وہ ابھی غسل نہیں کر ے گا؟ وہ اس وقت دروازے پر کھڑا کس کا انتظار کررہا ہے ؟ جمال کی نظر اس پر پڑی تو وہ جلدی سے گھر کے اندر گھس گیا اور دروازہ بھی اس نے اندر سے بند کر لیا۔ اسے لگا جیسے جمال اس سے نظریں چرارہا ہو۔ پھر وہ اپنے سائبر کیفے میں داخل ہو ا اور دن بھر کے حساب کتاب میں منہمک ہوگیا۔ ملازم ایک ایک کر کے رخصت ہو نے لگے ۔ حساب کتاب کرنے کے بعد اس نے شٹر گرایا اور تالا لگا کر سیدھا کھڑا ہی ہواتھا کہ ایک رکشہ آکر رکا اوراس سے گلبدن اتر تی دکھائی دی ۔ چما چم کپڑوں میں ملبوس ، خوشبوؤں میں بسی ہوئی، ایک ہاتھ میں بیگ جھلاتی ہوئی۔دونوں کی نگاہیں ملیں تو گلبدن نے مسکراکر اسے سلام کیا ۔ وہ پوچھ بیٹھا۔
’’کہاں سے آرہی ہیں ؟‘‘
’’ایک کو لیگ کے بیٹے کا Reception تھا۔ ‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا اور ایک قاتل نگاہ اس پرڈالی ۔
’’جمال کو ساتھ لے کر نہیں گئیں ؟‘‘
’’نہیں اگر انہیں لے جاتی تو پھر سبزہ کو بھی لے جانا پڑتا۔ میز بان کیا سوچتا کہ دعوت تو ایک کو دی اور یہاں پورا کا پورا گھر اٹھ کر چلا آیا۔ ‘‘ وہ اٹھلا کر بولی اور اسے ایسا محسوس ہو ا کہ اس کا دل سینے کے اندر قلابازی کھا گیا ہو۔ ہے ہے کیا انداز ہے ، کیا ادا ہے ، دل کر تاہے کے دل میں بسا کر رکھ لیں۔ اس نے چاہا کہ گلبدن کو لڈ ڈ رنک کی دعوت دے اوراپنے فلیٹ پر لے جا کر ......مگر وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہ جٹا سکا ۔ پھر اس نے سوچا کہ اس پر اپنے شک کا اظہار کر دے اور کہہ دے کہ اپنے سیدھے سادے نظر آنے والے شوہر پر نگاہ رکھے ۔ اور اس فتنہ ساماں کے جسم میں ہورہی تبدیلیوں کو محسوس کرے۔ مگر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ کبھی کسی کی شکایت اس کے اپنوں سے نہیں کرنی چاہئے .... خواہ بات سچ ہی کیوں نہ ہو اور اگر کہیں جمال بے قصور نکلا تو...... ؟ دونوں کی بظاہر ٹھیک ٹھاک زندگی میں طوفان آجائے گا۔ او رپھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے پالتو شوہر کو تو کچھ نہ کہے مگر اس بے سائبان لڑکی کو گھر سے نکال کر زمانے کی سونامی لہروں کے حوالے کر دے ۔
گلبدن نے جاتے جاتے معنی خیز انداز میں کہا۔
’’میں بھی کمپیوٹر سیکھنا چاہتی ہوں‘‘
’’شوق سے .... میں خود سکھاؤں گا۔‘‘
’’نہیں آپ سے نہیں سیکھوں گی ۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘ شوکت کا سوال سن کر وہ دھیرے سے ہنسی ۔پھر اس نے سرگوشی کے لہجے میں کہا۔
’’آپ بہت بد معاش ہیں ۔‘‘ اور اس کی جانب پر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنے دروازے کی جانب بڑھ گئی ۔ شوکت نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور سوچا کہ گلبدن ٹھیک ہی کہتی ہے ۔جب تک کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ بدمعاشی نہیں کرتا وہ اسے بدمعاش ہی سمجھتی ہے ۔
گلبدن جاچکی تھی ، مگر اس کے بدن سے اٹھتی ہوئی خوشبو اب بھی اس کے چاروں طرف رقص کر رہی تھی ۔ اسے جمال کی قسمت پر رشک آیا۔ گورابند ، کالا بدن ، پختہ بدن ، نوخیز بدن ، گداز بدن ، چھریرا بدن، راوی عیش ہی عیش لکھتاہے ۔اس نے بے خیالی میں اپنی قسمت ٹھونکی او رمرے مرے قدموں سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
وہ رات اس نے تلپھٹے میں کاٹی۔ کبھی وہ اپنے آپ کو گلبدن کی ٹانگوں ک درمیان پاتا۔ کبھی اپنے آپ کو سبزہ کے پستانوں پر ٹکا ہو اپاتا اورکبھی زہرہ کا مرمریں جسم اسے اپنے بدن سے لپٹا ہوا محسوس ہوتا۔ پھر اسے لگا کہ اس کا سارا جسم پگھلتاجارہا ہے اور وہ سر تاپا سیال میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ اسے بڑی گرمی محسوس ہوئی ۔ا سے لگا جیسے وہ دودھ سے بھری کوئی کیتلی ہو اور تیز آنچ پر کھولتے کھولتے دودھ اچانک پتیلی سے باہر ابل پڑاہو۔ وہ ہڑ برا کر اٹھ بیٹھا۔ بجلی گل تھی اورچہار جانب تاریکی پھیلی ہوئی تھی ۔ اسے شدت کے ساتھ اپنی تنہائی کا احساس ہوا۔ وہ گھبرا کر برآمدے میں نکل پڑا اورگلبدن کے آنگن میں کھلنے والی کھڑکی پر سے پردہ ہٹایا تاکہ ہوا آسکے۔ اسے آنگن میں روشنی دکھائی دی اور ساتھ ساتھ کچھ ایسی آوازیں بھی سنائی دیں گویا کوئی قے کررہا ہو۔ اس نے نیچے جھانک کر دیکھا۔ آنگن کے ایک کونے میں لالٹین رکھی تھی اورنالی کے کنارے سبزہ اپنا سینہ تھا مے بیٹھی تھی ۔ا س کا پورا جسم دھیرے دھیرے لرزرہا تھا ۔ شوکت کے دل میں بیک وقت ہمدردی اور افسوس کے جذبات پیدا ہوئے ۔ وہ بے سہارا لڑکی اس وقت اسے بہت مظلوم دکھائی دے رہی تھی ۔ سبزہ کو ایک زور کی ابکائی آئی اور شوکت کا دل کانپ اُٹھا۔ وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ گیا۔ اس کا دل الٹ پلٹ ہورہا تھا۔ اس نے ٹھنڈے پانی سے منہ دھویا اوربستر پر جا کر لیٹ رہا مگر اب نیند اس کی آنکھوں سے غائب ہوچکی تھی ۔ وہ کافی دیر تک یوں ہی لیٹا رہا ۔ کوئی تین بجے کے قریب بجلی آئی تو اس کی آنکھ جھپک گئی ۔ پھر اس نے ایک عجیب ساخواب خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہے مگر آئینے میں اس کے عکس کی جگہ ایک لومڑی دکھائی دے رہی تھی جس کے منہ سے لارٹپک رہی تھی ۔ اس کا جی متلانے لگا، پھر وہ لومڑی زور سے ہنسی اور اس کی آنکھ کھل گئی ۔ وہ اپنے آپ کو بری طرح گھبرایا ہوا محسوس کررہا تھا۔
چندروز یوں ہی گزر گئے ۔ زہرہ جبیں اب تک لوٹی نہ تھی۔ گلبدن بھی کئی روز سے دکھائی نہ دے رہی تھی۔ اس نے کئی بار اس کے آنگن میں جھانک کر کچھ دیکھنے کی کوشش کی مگر اسے صرف سناٹا نظرآیا۔ البتہ کچھ آوازیں سنائی دے جاتیں جس سے یہ اندازہ ہوتا کہ گھر میں لوگ ہیں۔ انہی دنوں اسے اپنے آپ میں عجیب سے تبدیلی محسوس ہونے لگی ۔ گلبدن کے آنگن میں جھانکنے و الی اپنی عادت پر اسے خفت ہونے لگی اور اس نے یہ سلسلہ ختم کردیا۔ پھر ایک روزیوں ہوا کہ شوکت دن کے دس بجے کسی کام کے سلسلے میں اپنے دوست ساحل کے پا س جارہا تھا ۔ راستے میں اسے سگریٹ کی طلب ہوئی تو اس نے ایک اسٹال کے پاس اپنا اسکوٹر روک دیا۔ اسٹال کے سامنے ایک دو منزلہ عمارت تھی جس کی پیشانی پر سوریا کلینک ، کا بڑا سا بورڈ آویزاں تھا ۔ ا س کلینک میں فیملی پلاننگ کے جملہ طریقوں کے ساتھ ساتھ Safe Abortion کی بھی سہولت تھی ۔ وہ سگریٹ سلگا کر مڑا تو کلینک سے گلبدن نکلتی دکھائی دی ۔ وہ سبزہ کا ہاتھ تھامے ہوئی تھی ۔ سبزہ کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ایسا محسوس ہورہا تھا گویا وہ کسی عذاب میں مبتلا ہو ۔ گلبدن اسے سہارا دے کر پاس کھڑے رکشے تک لے گئی اور بدقت تمام اسے رکشے پر سوار کر کے خود بھی اس پر بیٹھ گئی ۔ شوکت سمجھ گیا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے ۔ اسی لمحے گلبدن کی نظر شوکت پر پڑی۔ گلبدن نے نظریں چرا لیں۔اس رات بھی شوکت کو ٹھیک طور پر نیند نہ آ سکی۔ذرا سی آ نکھ لگتی تو اسے سبزہ کا بھیانک چہرہ نظر آتا۔پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ وہ خون کا قے کر تی نظرآتی ۔ پھر اسے سبزہ کے قریب ایک سایہ نظرآیا۔ سبزہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے خون آلود قے کو سمیٹا اور اس سائے کے چہرے پر مل دیا۔
اس کے بعد کئی دنوں تک نہ گلبدن نظرآئی نہ سبزہ ۔ جمال کو اکثر وہ اسی ہوٹل میں دیکھتا جہاں آجکل وہ خود کھانا کھارہا تھا۔ اس نے جمال سے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔و ہ سمجھ گیا کہ گلبدن سبزہ کو لے کر کہیں چلی گئی ہے ۔
چند روز اور گزر گئے ۔ایک دن شام سات بجے وہ اپنی سیٹرھیوں سے ا تررہا تھا کہ گلبدن رکشے سے اترتی دکھائی دی ۔ بجلی حسب معمول غائب تھی۔ اور آس پاس کے گھروں کی دیواروں پر جنریٹر کی روشنی سے جلنے والے Indicator فضا میں پھیلی ہوئی تاریکی کو دور کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے ۔ گلبدن ہشاش بشاش نظر آرہی تھی ۔ اس کے ساتھ گیارہ بارہ سال کی بڑی بڑی آنکھوں والی ایک معصوم سی لڑکی بھی تھی جو حیران حیران سی چاروں طر ف نظریں گھما کر نہ جانے کیا دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک پھول دار جمپر پہن رکھا تھا جس پر ہلکا سا اُبھار دکھائی دے رہاتھا۔ شوکت کو دیکھ کر گلبدن نے اسے سلام کیا ۔ شوکت پوچھ بیٹھا ۔
’’کہاں گئی تھیں ؟‘‘
’’گاؤں ۔‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔
’’کوئی خاص بات ؟‘‘
’’ہاں ... سبزہ کا بندوبست کر نے گئی تھی ۔ ‘‘
’’’کیسا بندوبست ؟‘‘
’’سیانی ہوگئی ہے ۔ اسے اس کے ماموں کے پاس چھوڑ آئی ہوں ۔ کچھ روپے بھی دے دیئے ہیں کہ کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر اس کے ہاتھ پیلے کر دے ۔‘‘
’’اوہ ! ‘‘ شوکت کے منہ سے ایک ٹھنڈی سانس نکلی ۔ چڑیا جمال کے ہاتھ سے نکلی چکی تھی ۔
’’اور یہ کون ہے ؟‘‘ اس نے گلبدن کے ساتھ آئی ہوئی نئی فاختہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔
سبزہ کے ماموں کی لڑکی ہے ۔ اب یہ یہیں رہے گی ۔ کچھ یہاں کا بھی تو بندو بست کرنا تھا۔ اس کا باپ تو اسے یہاں بھیجنے پر راضی نہ ہورہا تھا۔ جب میں نے اس سے وعدہ کیا کہ اس کی شادی کا بندوبست بھی میں ہی کردوں گی ، تب تیار ہوا۔‘‘
اچانک جنریٹر بند ہوگیا اور ایک دم سے اندھیرا چھا گیا۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ یہ سمجھ پانے سے قاصر تھا کہ چہار جانب پھیلی ہوئی تاریکی زیادہ گہری ہے یا گناہوں کی سیاہی ۔اسے گلبدن کے خوبصورت چہرے پر خون آلود قے کے چھینٹے دکھائی دے گئے ۔اس کا جی متلانے لگا اور قے کر نے کی شدید خواہش سے اس کے اعصاب تن گئے ۔ مگر وہ یہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ قے کس کے منہ پر کرے .... کس کے منہ پر؟