شاعری

دھواں اٹھ رہا ہے

دھواں اٹھ رہا ہے افق سے دھواں اٹھ رہا ہے سمندر کی سانسیں اکھڑنے لگی ہیں بہت دھیمی دھن پر کوئی ماہیا گا رہا ہے حرکت حرکت حرکت حرکت قویٰ شل ہوئے جا رہے ہیں اچانک وہ آبی پرندوں کو اڑتا ہوا دیکھتے ہیں سبھی چیختے ہیں تو سلطان صاحب سریر آمدی علیٰ کل شئ قدیر آمدی کلیسا شوالے مقدس ...

مزید پڑھیے

پرچھائیاں پکڑنے والے

ڈائری کے یہ سادہ ورق اور قلم چھین لو آئینوں کی دکانوں میں سب اپنے چہرے لیے اک برہنہ تبسم کے محتاج ہیں سرد بازار میں ایک بھی چاہنے والا ایسا نہیں جو انہیں زندگی کا سبب بخش دے دھند سے جگمگاتے ہوئے شہر کی بتیاں سجدہ کرتی ہوئی کہکشاں خوبصورت خداؤں کی پھرتی ہوئی ٹولیاں ایسا لگتا ہے ...

مزید پڑھیے

واپسی

اذیت اور اس سکوں دونوں کو ہی دل کھول کے میں نے لٹایا ہے ہزاروں بار ایسا بھی ہوا ہے دوستوں کی رہنمائی میں پھرا ہوں مارا مارا شہر کی آباد سڑکوں پر کبھی ویران گلیوں میں کبھی صحراؤں کی بھی خاک چھانی ہے مگر اس بار جانے کیا ہوا مجھ کو نمائش کی دکانوں میں سجا کر خود کو گھر واپس چلا ...

مزید پڑھیے

نجات

نزول عتاب کی گھڑی نزدیک ہے۔۔۔ درباری کتے! روپوش باغیوں کی تلاش میں زمینیں سونگھتے پھر رہے ہیں سربراہوں کی قوت فیصلہ جواب دے چکی ہے ان کے مفلوج ہاتھ درباریوں کے رچائے شڑینتروں پر کیوں دستخط کرنے کی مشینیں ہیں ان کی زبانیں صرف دھمکیاں بولتی ہیں ان کے انا پرست کان گڑگڑاہٹیں سننے ...

مزید پڑھیے

شناسا آہٹیں

ادھر کئی دنوں سے دور دور تک بھی نیند کا پتہ نہیں کسیلے کڑوے ذائقے ٹپک رہے ہیں آنکھ سے کئی پہر گزر چکے طویل کالی رات کے میں سن رہا ہوں دیر سے ہزاروں بار کی سنی سنائی دستکیں کبھی شناسا آہٹیں کبھی نشیلی سرسراہٹیں کواڑ کھولتے ہی دستکیں! وہ آہٹیں نشیلی سرسراہٹیں خراج روٹھی نیند کا ...

مزید پڑھیے

فریادی ماتم

خدائے لم یزل کی بارگاہ میں سر بہ سجود! انا کی چوکھٹوں میں جڑے چہروں والے لوگ پیشانیوں پر گٹے ڈالنے میں مصروف ہیں آٹے میں سنی مٹھیاں ان کی بخشش کی ضمانت ہیں یہ کون سی جنت نعیم ہے جس کا راستہ چیونٹیوں کی بانبی سے ہو کر گزرتا ہے دربانوں اور کتوں کو کھلی آزادی ہے 'جاگتے رہو' کی ...

مزید پڑھیے

آوارہ پرچھائیاں

سارے دن کی تھکی، ویران اور بے مصرف رات کو ایک عجیب مشغلہ ہاتھ آ گیا ہے اب وہ! سارے شہر کی آوارہ پرچھائیوں کو جسم دینے کی کوشش میں مصروف ہے مجھے معلوم ہے اگر گم نام پرچھائیوں کو ان کی پہچان مل گئی تو شہر کے معزز اور عبادت گزار شریف زادے ہم شکل پرچھائیوں کے خوف سے پرچھائیوں میں ...

مزید پڑھیے

عقد نامے

آج انہوں نے اعلان کر ہی دیا دیکھو! ہم نے تمہاری سب کی سب قوتوں کا فیصلہ کیا تھا قیل و قال کی گنجائش باقی نہیں ہے تمہارے اقرار نامے ہمارے پاس محفوظ ہیں تم سے پہلے والوں کی خطا یہی تھی کہ انہیں، اپنی ناف کے نیچے سرسراہٹ کا احساس کچھ زیادہ ہی ہو چلا تھا انہیں شہر بدر کر دیا گیا ان کے ...

مزید پڑھیے

صحیح کہہ رہے ہو

صحیح کہہ رہے ہو شکایت بجا ہے تمہاری گھنے گرد چہرے تمہارے نہیں ہیں خزاں زادے شہروں کا رخ کر رہے ہیں گلابی ہرے نیلے پیلے سبھی رنگ موسم اڑا لے گیا ہے کوئی دھانی چونری ہوا سے نہیں کھیلتی ہے کہانی سناؤ کسی وقت بھی کہ دن رات کی قید باقی نہیں ہے سنا ہے مسافر کوئی راستہ اب نہیں ...

مزید پڑھیے

میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے

میں ڈر رہا ہوں ہر اک امتحان سے پہلے مرے پروں کو ہوا کیا اڑان سے پہلے مرے نصیب میں رستوں کی دھول لکھی تھی نہ مل سکی مجھے منزل تکان سے پہلے یہ کون شخص تھا چالاک کس قدر نکلا کہ بات چھیڑ گیا درمیان سے پہلے میں اس کے درد کا درماں تو جانتا تھا مگر وہ کچھ تو بولتا اپنی زبان سے پہلے تم ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5829 سے 5858