جب ترے نین مسکراتے ہیں
جب ترے نین مسکراتے ہیں زیست کے رنج بھول جاتے ہیں کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر بھول کر آ گئے ہیں جاتے ہیں کشتیاں یوں بھی ڈوب جاتی ہیں ناخدا کس لیے ڈراتے ہیں اک حسیں آنکھ کے اشارے پر قافلے راہ بھول جاتے ہیں
جب ترے نین مسکراتے ہیں زیست کے رنج بھول جاتے ہیں کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر بھول کر آ گئے ہیں جاتے ہیں کشتیاں یوں بھی ڈوب جاتی ہیں ناخدا کس لیے ڈراتے ہیں اک حسیں آنکھ کے اشارے پر قافلے راہ بھول جاتے ہیں
ان کو عہد شباب میں دیکھا چاندنی کو شراب میں دیکھا آنکھ کا اعتبار کیا کرتے جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا داغ سا ماہتاب میں پایا زخم سا آفتاب میں دیکھا جام لا کر قریب آنکھوں کے آپ نے کچھ شراب میں دیکھا کس نے چھیڑا تھا ساز مستی کو؟ ایک شعلہ رباب میں دیکھا لوگ کچھ مطمئن بھی تھے ...
گرتے ہیں لوگ گرمئ بازار دیکھ کر سرکار دیکھ کر مری سرکار دیکھ کر آوارگی کا شوق بھڑکتا ہے اور بھی تیری گلی کا سایۂ دیوار دیکھ کر تسکین دل کی ایک ہی تدبیر ہے فقط سر پھوڑ لیجئے کوئی دیوار دیکھ کر ہم بھی گئے ہیں ہوش سے ساقی کبھی کبھی لیکن تری نگاہ کے اطوار دیکھ کر کیا مستقل علاج ...
آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا اللہ رے نادان جوانی کی امنگیں! جیسے کوئی بازار سجایا نہیں جاتا آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں ...
ہم سے چناں چنیں نہ کرو ہم نشے میں ہیں ہم جو کہیں نہیں نہ کرو ہم نشے میں ہیں نشہ کوئی ڈھکی چھپی تحریک تو نہیں ہر چند تم یقیں نہ کرو ہم نشے میں ہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی بانہوں میں آ گریں آنکھوں کو خشمگیں نہ کرو ہم نشے میں ہیں باتیں کرو نگار و بہار و شراب کی اذکار شرع و دیں نہ کرو ہم ...
ایک نامقبول قربانی ہوں میں سرپھری الفت میں لا ثانی ہوں میں میں چلا جاتا ہوں واں تکلیف سے وہ سمجھتے ہیں کہ لا ثانی ہوں میں کان دھرتے ہی نہیں وہ بات پر کب سے مصروف ثنا خوانی ہوں میں زندگی ہے اک کرائے کی خوشی سوکھتے تالاب کا پانی ہوں میں مجھ سے بڑھ کر کیا کوئی ہوگا امیر قیمتی ...
لہرا کے جھوم جھوم کے لا مسکرا کے لا پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا ساغر شکن ہے شیخ بلا نوش کی نظر شیشے کو زیر دامن رنگیں چھپا کے لا کیوں جا رہی ہے روٹھ کے رنگینیٔ بہار جا ایک مرتبہ اسے پھر ورغلا کے ...
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ جانتا ہوں کیسے ہوتی ہے سحر زندگی کاٹی ہے بیماروں کے بیچ میرے اس کوشش میں بازو کٹ گئے چاہتا تھا صلح تلواروں کے بیچ وہ جو میرے گھر میں ہوتا تھا کبھی اب وہ سناٹا ہے بازاروں کے بیچ تم نے چھوڑا تو مجھے یہ طائراں بھر کے ...
آنکھ پہ پٹی باندھ کے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے یہ کس نے صحرا میں لا کر صحرا چھوڑ دیا ہے جسم کی بوری سے باہر بھی کبھی نکل آؤں گا ابھی تو اس پر خوش ہوں اس نے زندہ چھوڑ دیا ہے ذہن مرا آزاد ہے لیکن دل کا دل مٹھی میں آدھا اس نے قید رکھا ہے آدھا چھوڑ دیا ہے جہاں دعا ملتی تھی اللہ جوڑی ...
اب پرندوں کی یہاں نقل مکانی کم ہے ہم ہیں جس جھیل پہ اس جھیل میں پانی کم ہے یہ جو میں بھاگتا ہوں وقت سے آگے آگے میری وحشت کے مطابق یہ روانی کم ہے دے مجھے انجم و مہتاب سے آگے کی خبر مجھ سے فانی کے لئے عالم فانی کم ہے غم کی تلخی مجھے نشہ نہیں ہونے دیتی یہ غلط ہے کہ تری چیز پرانی کم ...