شاعری

بہار زخم لب آتشیں ہوئی مجھ سے

بہار زخم لب آتشیں ہوئی مجھ سے کہانی اور اثر آفریں ہوئی مجھ سے میں اک ستارہ اچھالا تو نور پھیل گیا شب فراق یوں ہی دل نشیں ہوئی مجھ سے گلاب تھا کہ مہکنے لگا مجھے چھو کر کلائی تھی کہ بہت مرمریں ہوئی مجھ سے بغل سے سانپ نکالے تو ہو گیا بدنام خراب اچھی طرح آستیں ہوئی مجھ سے کہاں سے ...

مزید پڑھیے

اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں

اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں انگارہ نما شخص بھی موجود ہے مجھ میں پوروں سے نکل آئی ہے اک برف کی ٹہنی اے دوست یہی آتش نمرود ہے مجھ میں ہر گیند کے پیچھے کوئی آتا ہے ہمیشہ یہ کون سے بچے کی اچھل کود ہے مجھ میں گالی نہیں اچھی تو تمہیں پیش کروں کیا اک اور بھی جملہ سخن آلود ہے ...

مزید پڑھیے

زنگ خوردہ لب اچانک آفتابی ہو گئے

زنگ خوردہ لب اچانک آفتابی ہو گئے اس گل خوش رنگ کو چھو کر گلابی ہو گئے اس غزل پر آیت پیغمبری اتری ہے کیا لوگ کہتے ہیں کہ سب مصرعے صحابی ہو گئے جھومنے لگتے ہیں اس کو دیکھتے ہی باغ میں ایسے لگتا ہے پرندے بھی شرابی ہو گئے اب تو مجھ پر بھی نہیں کھلتا ہے دروازہ مرا تم تو آتے ہی مرے ...

مزید پڑھیے

تمہیں گلا ہی سہی ہم تماشہ کرتے ہیں

تمہیں گلا ہی سہی ہم تماشہ کرتے ہیں مگر یہ لوگ بھی کیا کم تماشہ کرتے ہیں دکھائی دیتے نہیں اولاً مرے درویش کہیں ملیں تو بہ رقصم تماشہ کرتے ہیں یہ خاص بھیڑ ہے مرحوم بادشاہوں کی یہاں سکندر آعظم تماشہ کرتے ہیں شریک کار عبادت نہیں رہے کہ یہ لوگ درون مجلس ماتم تماشہ کرتے ہیں بس ایک ...

مزید پڑھیے

ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے

ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے چراغوں میں نیا پن آ رہا ہے جمال یار تیرے جھانکنے سے کنویں سے پانی روشن آ رہا ہے میں گلیوں میں نکلنا چاہتا ہوں مرے رستے میں آنگن آ رہا ہے مجھے شہتوت کی خواہش بہت تھی مگر مجھ پر تو جامن آ رہا ہے میاں میں اپنی جانب آ رہا ہوں خبر کر دو کہ دشمن آ رہا ...

مزید پڑھیے

امی

سویرے سویرے جگاتی ہیں امی مرے ہاتھ منہ پھر دھلاتی ہیں امی بڑے پیار سے گوندھتی ہیں وہ آٹا توے پر پراٹھے پکاتی ہیں امی کبھی کالی چائے کبھی گوری چائے بنا کر نوالے کھلاتی ہیں امی بڑے بھیا کو سادہ روٹی پروسیں ستا کر انہیں کھلکھلاتی ہیں امی اگر منہ پھلا کے میں روٹھوں کبھی تو بہ ہر ...

مزید پڑھیے

اس کی وفا نہ میری وفا کا سوال تھا

اس کی وفا نہ میری وفا کا سوال تھا دونوں ہی چپ تھے صرف انا کا سوال تھا اس کشمکش میں ختم ہوا رات کا سفر ضد تھی مری تو اس کی حیا کا سوال تھا سب منتظر تھے آسماں دیتا ہے کیا جواب پیاسے لبوں پہ کالی گھٹا کا سوال تھا مجبور ہم تھے اور وہ مختار تھا مگر دونوں کے بیچ دست دعا کا سوال ...

مزید پڑھیے

ظرف سے بڑھ کے ہو اتنا نہیں مانگا جاتا

ظرف سے بڑھ کے ہو اتنا نہیں مانگا جاتا پیاس لگتی ہے تو دریا نہیں مانگا جاتا چاند جیسی بھی ہو بیٹی کسی مفلسی کی تو اونچے گھر والوں سے رشتہ نہیں مانگا جاتا دوستی کر کے ہوا سے جو جلا دیں گھر کو ان چراغوں سے اجالا نہیں مانگا جاتا اپنے کمزور بزرگوں کا سہارا مت لو سوکھے پیڑوں سے تو ...

مزید پڑھیے

نام خوشبو تھا سراپا بھی غزل جیسا تھا

نام خوشبو تھا سراپا بھی غزل جیسا تھا چاند سے چہرے پہ پردہ بھی غزل جیسا تھا سارے الفاظ غزل جیسے تھے گفتار کے وقت رنگ اظہار تمنا بھی غزل جیسا تھا پھول ہی پھول تھے کلیاں تھیں حسیں گلیاں تھیں آپ کے گھر کا وہ رستہ بھی غزل جیسا تھا اس کی آنکھیں بھی حسیں آنکھ میں آنسو بھی حسیں غم میں ...

مزید پڑھیے

وفاداری پہ دے دی جان غداری نہیں آئی

وفاداری پہ دے دی جان غداری نہیں آئی ہمارے خون میں اب تک یہ بیماری نہیں آئی خدا کا شکر صحبت کا اثر ہوتا نہیں ہم پر اداکاروں میں رہ کر بھی اداکاری نہیں آئی امیر شہر ہو کر بھی نہیں کوئی تری عزت ترے حصے میں غیرت اور خودداری نہیں آئی ہماری درس گاہوں کی نظامت ایسی بگڑی ہے کتابیں پڑھ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5781 سے 5858