شاعری

ہونکتے دشت میں اک غم کا سمندر دیکھو

ہونکتے دشت میں اک غم کا سمندر دیکھو تم کسی روز اگر دل میں اتر کر دیکھو نکلو سڑکوں پہ تو ہنستی ہوئی لاشوں سے ملو بند آنکھیں جو کرو قتل کا منظر دیکھو آنچ قربت کی نہ پگھلا دے کہیں تار نظر شعلۂ حسن کو کچھ دور سے بچ کر دیکھو یہ تو کہتے ہو کہ خود میں نے کٹائی گردن کوئی ہاتھوں میں ہوا ...

مزید پڑھیے

ہر انساں اپنے ہونے کی سزا ہے

ہر انساں اپنے ہونے کی سزا ہے بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہے نئے دربانوں کے پہرے بٹھاؤ ہجوم درد بڑھتا جا رہا ہے رہے ہم ہی جو ہر پتھر کی زد میں ہماری سر بلندی کی خطا ہے مہکتے گیسوؤں کی رات گزری سوا نیزے پہ اب سورج کھڑا ہے مرے خوابوں کی چکنی سیڑھیوں پر نہ جانے کس کا بت ٹوٹا پڑا ...

مزید پڑھیے

بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے

بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے نگاہیں پھیر لے اپنی نہ خود کو دھوکا دے مصاف زیست ہے بھر دے لہو سے جام مرا نہ مسکرا کے مجھے ساغر تمنا دے کھڑا ہوا ہوں سر راہ منتظر کب سے کہ کوئی گزرے تو غم کا یہ بوجھ اٹھوا دے وہ آنکھ تھی کہ بدن کو جھلس گئی قربت مگر وہ شعلہ نہیں روح کو جو گرما ...

مزید پڑھیے

غبار درد سے سارا بدن اٹا نکلا

غبار درد سے سارا بدن اٹا نکلا جسے بھی خندہ بہ لب دیکھا غم زدا نکلا اب احتیاط بھی اور کیا ہو بے لباس تو ہوں اک آستین سے مانا کہ اژدہا نکلا مرے خلوص پہ شک کی تو کوئی وجہ نہیں مرے لباس میں خنجر اگر چھپا نکلا لگا جو پیٹھ میں نیزہ تو سمجھے دشمن ہے مگر پلٹ کے جو دیکھا تو آشنا نکلا مرے ...

مزید پڑھیے

دعا کو ہاتھ مرا جب کبھی اٹھا ہوگا

دعا کو ہاتھ مرا جب کبھی اٹھا ہوگا قضاوقدر کا چہرہ اتر گیا ہوگا جو اپنے ہاتھوں لٹے ہیں بس اس پہ زندہ ہیں خدا کچھ ان کے لیے بھی تو سوچتا ہوگا تری گلی میں کوئی سایہ رات بھر اب بھی سراغ جنت گم گشتہ ڈھونڈتا ہوگا جو غم کی آنچ میں پگھلا کیا اور آہ نہ کی وہ آدمی تو نہیں کوئی دیوتا ...

مزید پڑھیے

اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا

اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا کم سے کم وجدان کے صحرا ہی میں گھومو ذرا نام کتنے ہی لکھے ہیں دل کی اک محراب پر ہوگا ان میں ہی تمہارا نام بھی ڈھونڈو ذرا بدگمانی کی یہی غیروں کو کافی ہے سزا مسکرا کر پھر اسی دن کی طرح دیکھو ذرا وقت کے پتھر کے نیچے اک دبا چشمہ ہوں میں آؤ پیاسو مل ...

مزید پڑھیے

اس سے پہلے کہ ہمیں اہل جفا رسوا کریں

اس سے پہلے کہ ہمیں اہل جفا رسوا کریں اپنی جاں دے کر وفا کرنے کا ہم وعدہ کریں آؤ شبنم کی طرح بن جائیں تقدیر چمن کیوں کلی بن کر کھلیں اور کھل کے مرجھایا کریں گلشن ہستی میں ہم ساون کے بادل کی طرح جھوم کر اٹھا کریں اور ٹوٹ کر برسا کریں خاکۂ الفت میں خوں بھرنا تھا ہم نے بھر دیا لوگ ...

مزید پڑھیے

لہو کی بوند مثل آئنہ ہر در پہ رکھی تھی

لہو کی بوند مثل آئنہ ہر در پہ رکھی تھی سند اہل وفا کی لاشۂ بے سر پہ رکھی تھی نگاہیں وقت کی کیسے نظر انداز کر دیتیں اساس گلستاں کترے ہوئے شہ پر پہ رکھی تھی انا مجروح ہو جاتی قدم پیچھے اگر ہٹتے بنائے قرب دوہری دھار کے خنجر پہ رکھی تھی ادھر ہم سر ہتھیلی پر لیے مقتل میں پہنچے ...

مزید پڑھیے

خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں

خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں سروں پہ سورج اٹھانے والے خود اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں سکوں سے مرتے ہیں مرنے والے جنہیں اجالوں کی ہے تمنا یہی بہت ہے کہ سوئے مقتل چراغ شام و سحر رہے ہیں انہیں بھروسہ دو زندگی کا جنہیں محبت ہے زندگی سے اجل کے ہم نقش پا پہ چل کر فنا ...

مزید پڑھیے

تری وفا کا ہوا تھا کبھی گماں مجھ کو

تری وفا کا ہوا تھا کبھی گماں مجھ کو وہی خیال ہوا عیش جاوداں مجھ کو شکایت ستم دشمناں میں کیا کرتا کہ بھولتا ہی نہیں لطف دوستاں مجھ کو ترے جمال کا ذکر جمیل میں کرتا نہ مل سکا کوئی عالم میں رازداں مجھ کو نہ سنگ میل نہ نقش قدم نہ رہبر ہے تری تلاش نے گم کر دیا کہاں مجھ کو تو خود ملے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5773 سے 5858