دل سویا ہوا تھا مدت سے یہ کیسی بشارت جاگی ہے
دل سویا ہوا تھا مدت سے یہ کیسی بشارت جاگی ہے اس بار لہو میں خواب نہیں تعبیر کی لذت جاتی ہے اس بار نظر کے آنگن میں جو پھول کھلا خوش رنگ لگا اس بار بصارت کے دل میں نادیدہ بصیرت جاگی ہے اک بام سخن پر ہم نے بھی کچھ کہنے کی خواہش کی تھی اک عمر کے بعد ہمارے لیے اب جا کے سماعت جاگی ہے اک ...