شاعری

نہ فاصلے کوئی نکلے نہ قربتیں نکلیں

نہ فاصلے کوئی نکلے نہ قربتیں نکلیں وفا کے نام سے کیا کیا سیاستیں نکلیں کھلی ہے وحشت عالم پہ آج کاکل یار کچھ اور دور خرد تیری نسبتیں نکلیں ہزار ہاتھوں کے پیمان نو کا مرکز ہے ہوا کے ہاتھ میں نادید طاقتیں نکلیں سپاہ عشق جہاں خندقوں میں جلتی تھی وہ موڑ کاٹ کے آخر محبتیں ...

مزید پڑھیے

جی ہے بہت اداس طبیعت حزیں بہت

جی ہے بہت اداس طبیعت حزیں بہت ساقی کو پیالۂ مے آتشیں بہت دو گز زمیں فریب وطن کے لیے ملی ویسے تو آسماں بھی بہت ہیں زمیں بہت ایسی بھی اس ہوا میں ہے اک کافری کی رو بجھ بجھ گئے ہیں شعلۂ ایمان و دیں بہت بے باکیوں میں فرد بہت تھی وہ چشم ناز دل کی حریف ہو کے اٹھی شرمگیں بہت پیکار خیر و ...

مزید پڑھیے

ہرے درخت کا شاخوں سے رشتہ ٹوٹ گیا

ہرے درخت کا شاخوں سے رشتہ ٹوٹ گیا ہوا چلی تو گلابوں سے رشتہ ٹوٹ گیا کہاں ہیں اب وہ مہکتے ہوئے حسیں منظر کھلی جو آنکھ تو خوابوں سے رشتہ ٹوٹ گیا ذرا سی دیر میں بیمار غم ہوا رخصت پلک جھپکتے ہی لوگوں سے رشتہ ٹوٹ گیا گلاب تتلی دھنک روشنی کرن جگنو ہر ایک شے کا نگاہوں سے رشتہ ٹوٹ ...

مزید پڑھیے

سچ بولنا چاہیں بھی تو بولا نہیں جاتا

سچ بولنا چاہیں بھی تو بولا نہیں جاتا جھوٹوں کے لئے شہر بھی چھوڑا نہیں جاتا تم کتنا ہی عہدوں سے نوازو ہمیں لیکن نفرت کا شجر ہم سے تو بویا نہیں جاتا سوچو تو جوانی کبھی واپس نہیں آتی دیکھو تو کبھی آ کے بڑھاپا نہیں جاتا دل پر تو بہت زخم زمانے کے لگے ہیں خود داری سے لیکن کبھی رویا ...

مزید پڑھیے

ہمارے چہرے پہ رنج و ملال ایسا تھا

ہمارے چہرے پہ رنج و ملال ایسا تھا مسرتوں کا زمانے میں کال ایسا تھا فضائے شہر میں بارود کی تھی بو شامل کہ سانس لینا بھی ہم کو محال ایسا تھا امیر شہر کے ہونٹوں پہ پڑ گئے تالے غریب شہر کا چبھتا سوال ایسا تھا بہ وقت شام سمندر میں گر گیا سورج تمام دن کی تھکن سے نڈھال ایسا تھا تمام ...

مزید پڑھیے

مری دنیا اکیلی ہو رہی ہے

مری دنیا اکیلی ہو رہی ہے تمنا گھر میں تنہا سو رہی ہے صدائیں گھٹ گئیں سینے کے اندر خموشی اپنی پتھر ہو رہی ہے تمناؤں کے سینے پر رکھے سر اداسی بال کھولے سو رہی ہے سنا ہے اپنا چہرہ زندگانی مسلسل آنسوؤں سے دھو رہی ہے یہاں سے اور وہاں تک نا امیدی ہمارے دل کا عنواں ہو رہی ہے

مزید پڑھیے

اس کو کوئی غم نہیں ہے جس کا گھر پتھر کا ہے

اس کو کوئی غم نہیں ہے جس کا گھر پتھر کا ہے کیا کرے گا تیز طوفاں بام و در پتھر کا ہے ایسے انساں سے کبھی امید کیا رکھے کوئی دیکھنے میں آدمی ہے دل مگر پتھر کا ہے کون سا ہے شہر جس میں میں بھٹک کر آ گیا راستے پتھر کے ہیں اور بام و در پتھر کا ہے آ گئے ہیں آگ کی زد میں ہزاروں جھونپڑے مجھ ...

مزید پڑھیے

ہر ایک راہ میں امکان حادثہ ہے ابھی

ہر ایک راہ میں امکان حادثہ ہے ابھی کہ کھو نہ جاؤں اندھیرے میں سوچنا ہے ابھی تمام عمر وہ چلتا رہا ہے صحرا میں گھنے درخت کے سائے میں جو کھڑا ہے ابھی سکون تیرے تصور سے جس کو ملتا ہے وہ تیری دید کو لیکن تڑپ رہا ہے ابھی ہر ایک شخص کے چہرے پہ خوف طاری ہے نہ جانے کون اندھیرے میں چیختا ...

مزید پڑھیے

حروف خالی صدف اور نصاب زخموں کے

حروف خالی صدف اور نصاب زخموں کے ورق ورق پہ ہیں تحریر خواب زخموں کے سوال پھول سے نازک جواب زخموں کے بہت عجیب ہیں یہ انقلاب زخموں کے غریب شہر کو کچھ اور غمزدہ کرنے امیر شہر نے بھیجے خطاب زخموں کے سروں پہ تان کے رکھنا ثواب کی چادر اترنے والے ہیں اب کے عذاب زخموں کے وہ ایک شخص کہ ...

مزید پڑھیے

حیران ہوں کہ آج یہ کیا حادثہ ہوا

حیران ہوں کہ آج یہ کیا حادثہ ہوا ہے آگ سرد دل بھی ہے میرا بجھا ہوا منزل پہ پہلے میری رسائی ہوئی تو پھر ہر نقش پا سے آگے مرا نقش پا ہوا ریکھائیں ہاتھ کی تو سوا جاگتی رہیں اے کاش میرا بخت رہے جاگتا ہوا تھی اس کی بند مٹھی میں چٹھی دبی ہوئی جو شخص تھا ٹرین کے نیچے کٹا ہوا نیرؔ کہانی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4719 سے 5858