شاعری

کماں نہ تیر نہ تلوار اپنی ہوتی ہے

کماں نہ تیر نہ تلوار اپنی ہوتی ہے مگر یہ دنیا کہ ہر بار اپنی ہوتی ہے یہی سکھایا ہے ہم کو ہمارے لوگوں نے جو جنگ جیتے وہ تلوار اپنی ہوتی ہے زبان چڑیوں کی دنیا سمجھ نہیں سکتی قبول و رد کی یہ تکرار اپنی ہوتی ہے نہ ہاتھ سوکھ کے جھڑتے ہیں جسم سے اپنے نہ شاخ کوئی ثمر بار اپنی ہوتی ...

مزید پڑھیے

لگا کر دیر جلدی کرنی ہوتی ہے

لگا کر دیر جلدی کرنی ہوتی ہے سڑک نے اپنی مرضی کرنی ہوتی ہے ضروری ہے کہ موت اپنی مریں سارے کسی نے خودکشی بھی کرنی ہوتی ہے یقیں قسمت پہ کرتے ہیں مگر پھر بھی ہمیں اپنی تسلی کرنی ہوتی ہے کسی کی بے گھری سے ان کو مطلب کیا انہیں تو گاڑی خالی کرنی ہوتی ہے لگا کر پاس سے باتیں بھی لوگوں ...

مزید پڑھیے

ہار کو جیت کے امکان سے باندھے ہوئے رکھ

ہار کو جیت کے امکان سے باندھے ہوئے رکھ اپنی مشکل کسی آسان سے باندھے ہوئے رکھ تجھ کو معلوم سے آگے کہیں جانا ہے تو پھر خواب کو دیدۂ حیران سے باندھے ہوئے رکھ ورنہ مشکل بڑی ہوگی یہاں دنیا داری دیکھ انسان کو انسان سے باندھے ہوئے رکھ جو بھلانے پہ کبھی بھول نہیں پاتا ہے مجھ کو اپنے ...

مزید پڑھیے

کسی کے نام پہ ننھے دیے جلاتے ہوئے

کسی کے نام پہ ننھے دیے جلاتے ہوئے خدا کو بھول گئے نیکیاں کماتے ہوئے وگرنہ بات ہماری سمجھ سے باہر تھی یہ عشق ہو گیا بس روٹھتے مناتے ہوئے ہماری واپسی آساں نہیں یقیں مانو یہاں تک آئے ہیں ہم کشتیاں جلاتے ہوئے انہیں عزیز ہے جینا جو جی رہے ہیں یہاں مذاق بن کے خود اپنا مذاق اڑاتے ...

مزید پڑھیے

بے یقینی کا تعلق بھی یقیں سے نکلا

بے یقینی کا تعلق بھی یقیں سے نکلا میرا رشتہ وہی آخر کو زمیں سے نکلا مجھ کو پہچان تو اے وقت میں وہ ہوں جو فقط ایک غلطی کے لئے عرش بریں سے نکلا ایک مرے آنکھ جھپکنے کی ذرا دیر تھی بس وہ قریب آتا ہوا دور کہیں سے نکلا ایڑیاں مار کے زخمی بھی ہوئے لوگ مگر کوئی چشمہ نہیں زرخیز زمیں سے ...

مزید پڑھیے

مانگنا خواہش دیدار سے آگے کیا ہے

مانگنا خواہش دیدار سے آگے کیا ہے کبھی دیکھا نہیں دیوار سے آگے کیا ہے رات بھر خوف سے جاگی ہوئی بستی کے مکیں تو بتا آخری کردار سے آگے کیا ہے کس لئے اس سے نکلنے کی دعائیں مانگوں مجھ کو معلوم ہے منجدھار سے آگے کیا ہے کچھ بتاؤ تو سہی سولی پہ لٹکے ہوئے شخص آخر اس عشق کی بیگار سے آگے ...

مزید پڑھیے

وقت جب راہ کی دیوار ہوا

وقت جب راہ کی دیوار ہوا کوئی سیلاب نمودار ہوا اس نے پیڑوں سے ہٹا لیں شاخیں باغ میں سے تو کئی بار ہوا میں نے جو دل میں چھپانا چاہا میرے چہرے سے نمودار ہوا ساحلی شام کا پھیلا منظر کچھ لکیروں میں گرفتار ہوا رات اک شخص بہت یاد آیا جس گھڑی چاند نمودار ہوا

مزید پڑھیے

ہر اک فن کار نے جو کچھ بھی لکھا خوب تر لکھا

ہر اک فن کار نے جو کچھ بھی لکھا خوب تر لکھا ہوا نے پانیوں پر پانیوں نے ریت پر لکھا درخشاں کتنے لمحے کر گیا اک برگ جاں رفتہ شجر سے گر کے اس نے دائروں میں کس قدر لکھا سبک سے رنگ ہلکے دائرے ابھرے ہوئے شوشے کسی نے کتنی فن کاری سے اس کے جسم پر لکھا میں ہوں ظلمت گزیں یہ کھیل ہے تقدیر کا ...

مزید پڑھیے

یہی نہیں کہ نظر کو جھکانا پڑتا ہے

یہی نہیں کہ نظر کو جھکانا پڑتا ہے پلک اٹھاؤں تو اک تازیانہ پڑتا ہے وہ ساتھ میں ہے مگر سب امانتیں دے کر تمام بوجھ ہمیں کو اٹھانا پڑتا ہے میں اس دیار میں بھیجا گیا ہوں سر دے کر قدم قدم پہ جہاں آستانہ پڑتا ہے اندھیرا اتنا ہے اب شہر کے محافظ کو ہر ایک رات کوئی گھر جلانا پڑتا ...

مزید پڑھیے

خاک و خلا کا حصار اور میں

خاک و خلا کا حصار اور میں حد نظر تک غبار اور میں شام و سحر انتظار اور میں سلسلۂ اعتبار اور میں بکھرے ہوئے شاہکار اور میں دور تک انتشار اور میں دل میں اترتی ہوئی اس کی یاد عالم بے اختیار اور میں سر پہ گھنی دھوپ کا ہے سائبان پاؤں تلے ریگ زار اور میں

مزید پڑھیے
صفحہ 4707 سے 5858