شاعری

مت تنگ ہو کرے جو فلک تجھ کو تنگ دست

مت تنگ ہو کرے جو فلک تجھ کو تنگ دست آہستہ کھینچیے جو دبے زیر سنگ دست گاہے حنا سے گاہ مرے خوں سے سرخ ہو سو سو طرح سے اس کے دکھاتے ہیں رنگ دست دیتا ہے کف سے دولت پابوس شمع کی رو دے گا سر پہ دھر کے پھر آخر پتنگ دست بھر آنکھ تجھ کو غیر نے دیکھا تو پھر مرے لیویں گے انگلیوں ہی سے کار‌ ...

مزید پڑھیے

اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم

اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم تو کیوں ملے سبو سے قدح اور قدح سے ہم ساقی نہ ہووے پاس تو کب جرعۂ شراب شیشے کے لے گلو سے قدح اور قدح سے ہم باقی رہے نہ بادہ تو اس کے عوض میں آب لے خم کی شست و شو سے قدح اور قدح سے ہم گردش پہ تیری چشم کی بحثے ہے ہم سے یار دعوے کی گفتگو سے قدح اور ...

مزید پڑھیے

تھے ہم استادہ ترے در پہ ولے بیٹھ گئے

تھے ہم استادہ ترے در پہ ولے بیٹھ گئے تو نے چاہا تھا کہ ٹالے نہ ٹلے بیٹھ گئے بزم میں شیخ جی اب ہے کہ ہے یاں عیب نہیں فرش پر گر نہ ملی جا تو تلے بیٹھ گئے غیر بد وضع ہیں محفل سے شتاب ان کی اٹھو پاس ایسوں کے تم اے جان بھلے بیٹھ گئے گھر سے نکلا نہ تو اور منتظروں نے تیرے در پہ نالے کیے ...

مزید پڑھیے

میری گو آہ سے جنگل نہ جلے خشک تو ہو

میری گو آہ سے جنگل نہ جلے خشک تو ہو اشک کی تفت سے گو جل نہ جلے خشک تو ہو پاک کرتے ہوئے گر اشک مرے دامن کا نالۂ گرم سے آنچل نہ جلے خشک تو ہو نمیٔ اشک کے باعث جو مری آہ سے رات زیر رخ تکیۂ مخمل نہ جلے خشک تو ہو مہروش حسن کی گرمی سے ترے وقت عرق تن پہ گر نیمۂ ململ نہ جلے خشک تو ...

مزید پڑھیے

یہ رخ یار نہیں زلف پریشاں کے تلے

یہ رخ یار نہیں زلف پریشاں کے تلے ہے نہاں صبح وطن شام غریباں کے تلے کیا کریں سینہ جو ناصح سے چھپاتے نہ پھریں داغ سے داغ ہیں کچھ اپنے گریباں کے تلے آہ کی برق جو سینے میں چمکتی دیکھی طفل اشک آ ہی چھپے دامن مژگاں کے تلے دل میں آتا ہے کروں اے گل خنداں تجھ بن بیٹھ کر گریہ کسی نخل ...

مزید پڑھیے

جو ہے چشمہ اسے سراب کرو

جو ہے چشمہ اسے سراب کرو شہر تشنہ میں انقلاب کرو مسکرانے کا فن تو بعد کا ہے پہلے ساعت کا انتخاب کرو اب کے تعبیر مسئلہ نہ رہے یہ جو دنیا ہے اس کو خواب کرو اور پکنے دو عشق کی مٹی پار عجلت میں مت چناب کرو عہد نو کے عجب تقاضے ہیں جو ہے خوشبو اسے گلاب کرو یوں خوشی کی ہوس نہ جائے ...

مزید پڑھیے

بارشوں میں اب کے یاد آئے بہت

بارشوں میں اب کے یاد آئے بہت ابر جو برسے نہیں چھائے بہت جانے کس کے دھیان میں ڈوبا تھا خواب نیند نے کنگن تو کھنکائے بہت پھر ہوا یوں لگ گیا جی عشق میں پہلے پہلے ہم بھی گھبرائے بہت منزلوں پر بار تھا رخت سفر اور ہم آنسو بچا لائے بہت مجھ سے میرا رنگ مانگے ہے دھنک رشک میں یوں بھی ہیں ...

مزید پڑھیے

گو ذرا تیز شعاعیں تھیں ذرا مند تھے ہم

گو ذرا تیز شعاعیں تھیں ذرا مند تھے ہم تو نے دیکھا ہی نہیں غور سے ہر چند تھے ہم ہم جو ٹوٹے ہیں بتا ہار بھلا کس کی ہوئی زندگی تیری اٹھائی ہوئی سوگند تھے ہم اور بیمار ہوئے جاتے ہیں خاموشی سے ایک آزار سخن تھا تو تنومند تھے ہم تیرے خط دیکھ کے اکثر یہ خیال آتا رہا ریشمیں ریشمیں تحریر ...

مزید پڑھیے

جان لے لے نہ ضبط آہ کہیں

جان لے لے نہ ضبط آہ کہیں رو لیا کیجے گاہ گاہ کہیں ابتدائی جو ایک خدشہ تھا کھل نہ جائے اسی پہ راہ کہیں ہونے والی ہے یہ فضا رنگین ابر ہونے لگے سیاہ کہیں یہ سہولت ہے زندگی کو بہت ربط ہوتا رہے نباہ کہیں اور کچھ دیر غم نظر میں رکھ کیا خبر مل ہی جائے تھاہ کہیں حیف سر سے گزر گیا ...

مزید پڑھیے

اب اجڑنے کے ہم نہ بسنے کے

اب اجڑنے کے ہم نہ بسنے کے کٹ گئے جال سارے پھنسنے کے تجربوں میں نہ زہر ضائع کر سیکھ آداب پہلے ڈسنے کے اس سے کہیو جو خود میں ڈوبا ہے تجھ پہ بادل نہیں برسنے کے ملنا جلنا ابھی بھی ہے لیکن ہاتھ سے ہاتھ اب نہ مسنے کے نقش ثانی ہیں جھلملاتے سراب نقش اول تھے پاؤں دھنسنے کے ایسا ویراں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4680 سے 5858