شاعری

غیر‌ متوقع ملاقات

برسوں بعد جب اس کو دیکھا پھول سا چہرہ بدل چکا تھا پیشانی پر فکر کی آیت آنکھیں اب سنجیدہ تھیں ہونٹ کنول اب بھی ویسے پر شادابی کچھ کم کم تھی پکے پھلوں کا بوجھ اٹھائے جسم تنا بل کھاتا تھا رنگیں پیراہن میں اب بھی خواب کی صورت لگتی تھی جانے کیسی کیسی حکایت دیکھ اسے یاد آتی تھی پہلی ...

مزید پڑھیے

کون ہے مجرم شہر علم کی تاراجی کا

یہ جو بونے خدا بنے ہیں عجیب شے سے جو لگ رہے ہیں ہیں در حقیقت یہ آدمی ہی بس ان کی خصلت جدا ہے تھوڑی انا جو ان کی کچل چکی ہے ضمیر ان کا جو مر گیا ہے یہ سچ ہے ذہنی غلام ہیں اب خباثتوں کے امام ہیں یہ ہمیشہ جھک کر ملے دنی سے ثنا میں رطب اللسان ہو کر گنہ کو ان کے ثواب جانا فریب کو لا جواب کہہ ...

مزید پڑھیے

مجھے شرمندہ رکھتے ہیں

یہ ہر شب سوچ کر سوتا ہوں آنے والی صبحوں میں گلوں سے پتیوں سے اوس کی بوندیں چرانی ہیں شہہ آکاش کی نظریں نما کرنوں سے پہلے جاگ جانا ہے صبائے عنبریں کے لمس کو محسوس کرنا ہے لباس سبز میں ملبوس الھڑ پتیوں کی باتیں سننی ہیں حسیں دوشیزہ کی مسکان سی کلیوں سے دو اک بات کر لوں گا مگر کچھ کر ...

مزید پڑھیے

جنگل ہم اور کالے بادل

آیا اک ہوا کا جھونکا یادیں بہت سی لے آیا رات کے سناٹے کی خوشبو اجلی صبح کی چہکاریں سبز ملائم پتوں والے بھیگے تنوں کا تازہ لمس اونچے گھنے جنگل کے اندر سانپ سے بل کھاتے رستوں پر ہونٹوں پہ آنکھوں میں سجائے جھجک خلش کی تتلی کو میرا اس کا تنہا سایہ وہ لمحہ بھی یاد آیا جب ہم جیسے ہی ...

مزید پڑھیے

رب بھی تیرے جیسا ہے ماں

شیریں نرمل جھرنے جیسی ٹھنڈی تازہ ہوا کے ایسی رم جھم اور برکھا کی طرح تو سورج اور چندا سی سخی ہے جلتی دھوپ میں بادل ہے تو رب کے پیار کی چھاگل ہے تو ہاں ماں بالکل ایسی ہے تو تو سیتا تو مریم ہے ماں رابعہ اور صفیہ ہے تو ہے یشودھا تو ہے حلیمہ زینب تو ہے فاطمہؓ ہے تو پاروتی اور دیوکی ...

مزید پڑھیے

عالموں کو بن باس دینے والے

سورج سے سائے کی توقع بادل سے سنہری دھوپ کی کانٹوں سے مہکتے پھول کی خوشبو صحرا سے ہریالی کی کیسے بھولے آپ ہیں صاحب کیسی توقع رکھتے ہیں کیچڑ میں جب آپ چلیں گے پاؤں تو گندے ہوں گے ہی جھوٹوں کی صحبت میں رہ کر سچ کیسے کہہ پائیں گے مرے ہوئے انساں کے لحم سے کیوں رغبت رکھتے ہیں آپ اب بھی ...

مزید پڑھیے

وہ لمحہ جو میرا تھا

اک دن تم نے مجھ سے کہا تھا دھوپ کڑی ہے اپنا سایہ ساتھ ہی رکھنا وقت کے ترکش میں جو تیر تھے کھل کر برسے ہیں زرد ہوا کے پتھریلے جھونکوں سے جسم کا پنچھی گھایل ہے دھوپ کا جنگل پیاس کا دریا ایسے میں آنسو کی اک اک بوند کو انساں ترسے ہیں تم نے مجھ سے کہا تھا سمے کی بہتی ندی میں لمحے کی پہچان ...

مزید پڑھیے

تم بھی

مدتوں بعد آئی ہو تم اور تمہیں اتنی فرصت کہاں ان کہے حرف بھی سن سکو آرزو کی وہ تحریر بھی پڑھ سکو جو ابھی تک لکھی ہی نہیں جا سکی اتنی مہلت کہاں میرے باغوں میں جو کھل نہ پائے ابھی ان شگوفوں کی باتیں کرو درد ہی بانٹ لو میرے کن ماہتابوں سے تم مل سکیں کتنی آنکھوں کے خوابوں سے تم مل ...

مزید پڑھیے

تم جو سیانے ہو گن والے ہو

ہیرے موتی لعل جواہر رولے بھر بھر تھالی اپنا کیسہ اپنا دامن اپنی جھولی خالی اپنا کاسہ پارہ پارہ اپنا گریباں چاک چاک گریباں والے لوگو تم کیسے گن والے ہو کانٹوں سے تلوے زخمی ہیں روح تھکن سے چور کوچے کوچے خوشبو بکھری اپنے گھر سے دور اپنا آنگن سونا سونا اپنا دل ویران پھولوں کلیوں کے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 931 سے 960