شاعری

یہاں لکھنا منع ہے

پاکیزہ ٹھہرائی جانے والی دیواروں پر لکھا ہے یہاں لکھنا منع ہے وہیں لکھ دیتے ہیں لوگ بے شرمی سے گالیاں بے ہودہ نعرے فرسودہ مذہبی احکامات میں لکھ دوں وہاں وہ لفظ جو میرے اندر مر رہے ہیں پر لکھ نہیں سکتا دیواریں روکتی ہیں مجھے روکتی ہیں میرے اندر دیواروں کو گرنے سے ایک جنرل کہتا ...

مزید پڑھیے

جو میرے مرنے کا تماشا نہیں دیکھنا چاہتی

میں جس دن پیدا ہوا اسی دن سے مر رہا ہوں وہ طبلے پر پیالے میں تلخ محلول رکھا تھا اب نہیں ہے وہ اک دریا بہتا تھا اسے خشک کر دیا گیا ہے وہ چھت سے رسی ٹنگی تھی ہٹا دی گئی ہے میں تمام عمر اپنوں کے نرغے میں رہا ہوں مجھے میرا پیالہ میرا دریا میری رسی تھوڑی دیر کے لیے واپس کیے جائیں میں ...

مزید پڑھیے

مکاشفہ

سنو اگر تم ختم کرنا ہی چاہتے ہو تو آدمی کو آدمی سے کرنے والے آدمی کو ختم کر دو اس سے وہ سب کچھ چھین لو جو تمہارے پاس بہت پہلے بھی نہیں تھا اور بعد میں بھی نہیں ہے جب آگ اور برف کی تاثیر ایک ہی ہے تو دونوں کی الگ الگ شکل تمہیں کیا دے سکتی ہے یا تم اس سے کیا لے سکتے ہو سوائے اس کے کہ تم ...

مزید پڑھیے

جھونکا

وہ کون تھی کہاں ملی مجھے تو کچھ پتہ نہیں مگر وہ جب چلی گئی تو دور تک خیال میں ہوا کا تیز شور تھا

مزید پڑھیے

ایسا بھی نہیں کہ

ایسا بھی نہیں کہ مجھے زندگی کے پیڑ کے پاس بے آس اور بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہو میں نے ابھی ابھی گلہریوں کی آواز سنی ہے گلہریاں میرے لئے بہشت کے اخروٹ لا رہی ہیں سوائے اس کے کہ آدم زاد کہیں دکھائی نہیں دیتا مگر جنگل بول رہا ہے کہ اس کے بول میں میری بچھڑی ہوئی آواز شامل ہے میرے بال ...

مزید پڑھیے

ابد

موت کس راہ پر کھڑی میری راہ دیکھ رہی ہے ابھی ابھی میں نے ہوا کی ان دیکھی چادر میں سوراخ کیا ہے اور بہت اوپر کے بادلوں کو چھلنی کر دیا ہے زمین بھر کی وہ ساری مٹی جو ان گنت دفن ہونے والوں کی کیمیا سے بنی ہے اور چاروں دشاؤں میں ان گنت بدن جلوں کی چتاؤں کی جو راکھ بنی ہے کہاں لے جائے گی ...

مزید پڑھیے

محور

ہماری آنکھوں میں جلنے والے نقوش باقی ہیں کان موسم کی گرم آہٹ سے چونک اٹھتے ہیں بھیگی مٹی کا لمس فن کو نکھار دیتا ہے نرسری کے پرانے گملوں میں پرورش کے تمام آداب خوب سجتے ہیں ہوا ابھی تک ہمارے پیڑوں کی سرد شاخوں میں سرسراتی ہے ہونٹ ہلتے ہیں اور گائک ہمارے وجدان کی شت اور اتھاہ ...

مزید پڑھیے

دھند کے رشتے ہے

دھند کے رشتے گہرے ہوتے جاتے ہیں آواز نہیں جو آئے اور کانوں کی بے کار ہوس پر جلتے پانی کے چھینٹے دے سوچ سکو تو سوچو اور اس ڈولتے پل کی راکھ پر اپنے الٹے سیدھے نام لکھو شنکر درگا ودیا وجے سمترا جو اب بھی ہے وہ کبھی نہ تھا جو کبھی نہ تھا وہ اب بھی ہے وہ اب بھی ہے اور تم اس کو پہچانتے ...

مزید پڑھیے

مکاشفہ۲

یہ کس کی ندا ماوراے ندا آ رہی ہے یہ روئے معشیت ہے یا غیب کا کوئی نورانی ہالا موت کی آمد آمد ہے موت مکتب علم عدم سے نکل کے جسم خاک و خاشاک سے جان نکالتی ہے پھر اپنی برتری سرخ روی لیے زمیں تا زمیں اور آسماں تا آسماں پھرتی ہے موت ایک کرتب باز ہے یا تمام کرتبوں کی موجد ہے اس نے نر اور ...

مزید پڑھیے

دراصل یہ نظم لکھی ہی نہیں گئی

بعض باتیں بہت معمولی ہوتی ہیں مگر ان کے دانت پورے جیون کو کاٹتے رہتے ہیں یہ ایک نظم کے درمیان ہوا آغاز تھا جو اختتام تک پہنچنے سے پہلے ہی پوری نظم سمیت گم ہو گیا شاید بعض بہت معمولی باتوں کے دانت ایک پوری نظم کے جیون کو مسلسل کاٹتے رہنے کے لیے ہوں گے سو تمہاری نظم گم ہو گئی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 905 سے 960