شاعری

رکاوٹ راستے کی میل کا پتھر نہیں ہوتا

رکاوٹ راستے کی میل کا پتھر نہیں ہوتا نظر منزل پہ ہو تو فاصلوں کا ڈر نہیں ہوتا قلعہ ایمان کا مضبوط ہو تو سر نہیں ہوتا خدا سے ڈرنے والوں کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا بھٹکتی ہے خوشی خانہ بدوشی کی طرح در در جہاں میں مستقل اس کا کہیں بھی گھر نہیں ہوتا فقط اعمال اور کردار پر ہیں منحصر ...

مزید پڑھیے

سجدے میں تو ضرور یہ سر دیر تک رہا

سجدے میں تو ضرور یہ سر دیر تک رہا رزق حرام کا بھی اثر دیر تک رہا ہر گوشہ بدن پہ سحر دیر تک رہا آنکھوں سے گفتگو کا اثر دیر تک رہا سچائی پر سزا تھی یہاں جھوٹ پر وہاں عالم میں کشمکش کے بشر دیر تک رہا ترک تعلقات سے سلجھا نہ مسئلہ بے چین وو ادھر یہ ادھر دیر تک رہا افسوس مستفیض مسافر ...

مزید پڑھیے

زیست کب اختتام تک پہنچی

زیست کب اختتام تک پہنچی صرف مٹی مقام تک پہنچی زندہ رہنے کو تھا حلال بہت پھر بھی دنیا حرام تک پہنچی سرکشی کے نصیب میں پتھر بندگی فیض عام تک پہنچی مسئلہ صرف کرسیوں کا تھا بات بابر سے رام تک پہنچی کام آتی تھی مشکلوں میں کبھی دوستی اب سلام تک پہنچی پردہ اٹھتے ہی گھر کی زینت ...

مزید پڑھیے

محبت ہو تو شام غم بھی پر تنویر ہوتی ہے

محبت ہو تو شام غم بھی پر تنویر ہوتی ہے چمک سی دل میں آنکھوں میں کوئی تصویر ہوتی ہے نظر آئے بہت مسرور ارباب چمن مجھ کو نہیں معلوم کیا اس خواب کی تعبیر ہوتی ہے یہی تاریکیاں غم کی پیام امن لائیں گی اندھیروں کے پس پردہ سحر تعمیر ہوتی ہے جوانی کی خطاؤں پر سزائیں داور محشر کہیں ...

مزید پڑھیے

خزاں کے خوف سے کلیوں کو لرزاں دیکھ لیتا ہوں

خزاں کے خوف سے کلیوں کو لرزاں دیکھ لیتا ہوں ہجوم رنگ و بو میں غم کے طوفاں دیکھ لیتا ہوں بھلا بیٹھا ہوں یاد تلخ ایام گزشتہ کی مگر اب بھی کبھی خواب پریشاں دیکھ لیتا ہوں تڑپ اٹھتا ہوں غم سے سینہ چاکان گلستاں کے گلوں کو دیکھ کر اپنا گریباں دیکھ لیتا ہوں گلوں کی سینہ چاکی بلبلوں کا ...

مزید پڑھیے

اک دیے کی لو کف صد آئینہ چمکا گئی

اک دیے کی لو کف صد آئینہ چمکا گئی روشنی کی اک کرن مہتاب کو شرما گئی ہاتھ ملتا دن کسی امید پر منتج ہوا خستگی بڑھتی ہوئی دیوار شب تک آ گئی اشک شوئی کے لیے تیری حمایت چاہئے دیکھ تیری ہم سبوئی میں یہ نوبت آ گئی عذر خواہانہ نگاہیں حرف چنتی رہ گئیں باز پرساں خامشی اپنی کہی منوا ...

مزید پڑھیے

رابطہ بن نہیں رہا راستہ بن نہیں رہا

رابطہ بن نہیں رہا راستہ بن نہیں رہا بھیڑ کے ساتھ ہوں مگر قافلہ بن نہیں رہا ناقۂ جاں کو روکئے دور تلک سراب ہے اور یہ دل کہ اب تلک پیشوا بن نہیں رہا زاد سفر نہ پوچھیے زاد سفر کے نام پر بے نمو ایک زخم ہے آبلہ بن نہیں رہا اتنا تو کہہ کہ ہاتھ میں اور کوئی ہنر بھی ہے تیرا سخن ترا کفیل ...

مزید پڑھیے

کبھی تو دست ہمہ گیر میں سبو ہو جائے

کبھی تو دست ہمہ گیر میں سبو ہو جائے یہ خاک بھی کبھی آسودۂ نمو ہو جائے بیاض دل پہ ترا نقش آشکارا ہو پھر اس کے بعد تری دید کو بہ کو ہو جائے نہیں کہ رنگ حنا میرے ہاتھ پر نہ کھلا ہتھیلیوں کو یہ ضد تھی کہ دل لہو ہو جائے وہ اور ہیں کہ جو سامان زیست مانگتے ہیں پہ اس قدر ہو کہ سامان آبرو ...

مزید پڑھیے

کوئی ملال اب بھی آشکار ہو تو معذرت

کوئی ملال اب بھی آشکار ہو تو معذرت نگاہ آپ سے گلہ گزار ہو تو معذرت سر مژہ عجب عجب چراغ جل اٹھیں اگر نواح چشم جشن نو بہار ہو تو معذرت یہ نخل بے نمو جو برگ و بار لا نہیں سکا بہ فیض دست غیر شاخسار ہو تو معذرت شکستگی کے بعد دل بھی دیکھنے کی چیز ہے نظر پڑے پہ آنکھ شرمسار ہو تو ...

مزید پڑھیے

تاک تازہ پر ادائے تازہ تر رکھ دیجیے

تاک تازہ پر ادائے تازہ تر رکھ دیجیے کچھ نہ کچھ بخشش صبا کے ہاتھ پر رکھ دیجیے دیجیے مت گفتگو کی راہ اس بے راہ کو ان کہی کی تیغ عریاں پر سپر رکھ دیجیے کانپنے لگتا ہے اس لاچار کا نیلا بدن شب کے زانو پر اگر گھبرا کے سر رکھ دیجیے عالم گیتی کی بے لطفی سے گھبرائے نہ دل چاہیے تو اک ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4549 سے 4657