پھول سے معصوم بچوں کی زباں ہو جائیں گے
پھول سے معصوم بچوں کی زباں ہو جائیں گے
مٹ بھی جائیں گے تو ہم اک داستاں ہو جائیں گے
میں نے تیرے ساتھ جو لمحے گزارے تھے کبھی
آنے والے موسموں میں تتلیاں ہو جائیں گے
کیا خبر کس سمت میں پاگل ہوا لے جائے گی
جب پرانے کشتیوں کے بادباں ہو جائیں گے
تجھ کو شہرت کی طلب اونچا اڑا لے جائے گی
دور تجھ سے یہ زمین و آسماں ہو جائیں گے
یاد آئے گی انہیں کیا کیا ہماری بے حسی
جب ہمارے عہد کے بچے جواں ہو جائیں گے
میرے نغمے میری خاطر کچھ بھی ہوں والیؔ مگر
آگ برساتی رتوں میں بدلیاں ہو جائیں گے