پھیلتا جاتا ہے نفرت کا دھواں عشق کرو
پھیلتا جاتا ہے نفرت کا دھواں عشق کرو
بجھ نہ جائے کہیں یہ شعلۂ جاں عشق کرو
عشق بن جینے کے آداب نہیں آتے ہیں
میرؔ صاحب نے کہا ہے کہ میاں عشق کرو
کج ادائی نہ فقیروں کو دکھاؤ یارو
ایک شب کے لیے مہماں ہیں یہاں عشق کرو
کل نہ ہم ہوں گے نہ تم ہو گے نہ یہ ہنگامے
کوئی دن اور ہے یہ رنگ جہاں عشق کرو
عشق کے سودے میں نقصان بہت ہے والیؔ
پر کبھی بند نہ ہو دل کی دکاں عشق کرو