پھر وہ نظر ہے اذن تماشا لئے ہوئے

پھر وہ نظر ہے اذن تماشا لئے ہوئے
تجدید آرزو کا تقاضا لئے ہوئے


چشم سیہ میں مستیاں شام وصال کی
عارض فروغ صبح نظارا لئے ہوئے


ہر ایک شخص ترک تمنا کا مدعی
ہر ایک شخص تیری تمنا لئے ہوئے


کل شب طلوع ماہ کا منظر عجیب تھا
تم جیسے آ گئے رخ زیبا لئے ہوئے


دل آج تک ہے لطف فراواں سے شرمسار
لب آج تک ہیں آپ کا شکوہ لئے ہوئے