پھر سے تیرا خیال آیا ہے
پھر سے تیرا خیال آیا ہے
درد میں اک ابال آیا ہے
داؤں پر لگ گیا ہوں میں شاید
سکہ کوئی اچھال آیا ہے
وقت مجھ سے ملا نزاکت سے
بھیڑیا پہنے کھال آیا ہے
دل کے اندر دماغ ہے اس کے
جس کے دل میں سوال آیا ہے
سوکھ کر آیا ہے لہو میں دم
یوں قلم میں کمال آیا ہے
لازمی تھا امید اندھی ہونا
رات کے گھر جمال آیا ہے