پھر اس کے بعد کا کوئی نہ ہو گزر مجھ میں

پھر اس کے بعد کا کوئی نہ ہو گزر مجھ میں
کبھی تو ایک پل اے دوست یوں ٹھہر مجھ میں


جو خود میں جھانکوں تو سناٹے سنسناتے ہیں
کوئی تو کر گیا ہے رات یوں بسر مجھ میں


بھٹکتا پھرتا ہوں سنسان رہ گزاروں پر
بسا ہوا ہے کسی یاد کا نگر مجھ میں


عجب نہیں کئی موتی بھی تیرے ہاتھ لگیں
ذرا لے کام تو ہمت سے اور اتر مجھ میں


میں تیری ذات کا سایا ہوں تیرے اندر ہوں
مری تلاش سر رہگزر نہ کر مجھ میں