پیڑوں کی گھنی چھاؤں اور چیت کی حدت تھی

پیڑوں کی گھنی چھاؤں اور چیت کی حدت تھی
اور ایسے بھٹکنے میں انجان سی لذت تھی


ان کہنہ فصیلوں کو پہروں ہی تکے جانا
ان خالی جھروکوں میں جیسے کوئی صورت تھی


حیران سی نظروں میں اک شکل گریزاں سی
اک سایۂ گزراں سے وہ کیسی محبت تھی


ہر جنبش لب اس کی دستک تھی در دل پر
ہر وقف خموشی میں تقریر کی لذت تھی


ہر دن کے گزرنے میں ہر رات کے ڈھلنے میں
ہر چشم زدن منزل ہر سانس مسافت تھی