کچھ گنہ نہیں اس میں اعتراف ہی کر لو

کچھ گنہ نہیں اس میں اعتراف ہی کر لو
جو چھپائے پھرتے ہو سب کے روبرو کہہ دو


بوجھ کیوں رہے دل پر اپنی کم کلامی کا
بزدلی بھی اچھی ہے چاہے تم یہ نہ مانو


شب جو خواب دیکھا تھا ایک دشت خواہش کا
اپنا جی کڑا کر کے آج اس سے کہہ ڈالو


خوب ہے سزا یہ بھی کسب کامیابی کی
ایک شب کی قیمت میں اب تو عمر بھر جاگو


ایک بار چھو لینا بس گل بدن اس کا
اک متاع خوشبو ہے ہاتھ عمر بھر چومو


تھا تو وہ بس اک لمحہ پر یہ اس کا پھیلاؤ
چاہے عشرتیں اس کی ساری زندگی لکھو


خواب لے کے آیا ہوں میں دکان دشمن پر
اس سے بیش قیمت اب اور چیز کیا بیچو