پردوں سے گھر کے راز چھپائے گا کیا کوئی

پردوں سے گھر کے راز چھپائے گا کیا کوئی
پھولوں سے گھر کا روپ کھلائے گا کیا کوئی


مشکل سے گھر کی بند ہوا پر ہے اختیار
باہر ہوا کو راہ دکھائے گا کیا کوئی


محنت سے تھک کے چور گناہوں کی بھیڑ کو
اچھے برے کا فرق سکھائے گا کیا کوئی


بازار اب ہے زیست کی روح رواں مگر
آب و ہوا کے دام لگائے گا کیا کوئی


ہر قسم کی شراب میسر ہوئی تو کیا
پانی سے بڑھ کے پیاس بجھائے گا کیا کوئی


آگے نکل چکی ہے حیا سے نظر کی بات
دانشؔ کسی سے آنکھ ملائے گا کیا کوئی