پیدا ہوا یہ حباب کیسا

پیدا ہوا یہ حباب کیسا
دریا میں ہے پیچ و تاب کیسا


اب فصل جنوں کہاں ہے باقی
پھر دیکھ رہا ہوں خواب کیسا


تھا دست ہنر میں موم سا جو
پتھرا گیا وہ شباب کیسا


سم سم کی صدا پہ کھل رہا تھا
تھا حلقۂ در سراب کیسا


ایک ایک ورق پڑھا ہوا سا
ہے نسخۂ انتخاب کیسا


پرتو سے ترے وجود میرا
آغوش میں لے حجاب کیسا


کیا جانے ہماری تلخ کامی
ہے ذائقۂ شراب کیسا


خوشبوئیں طواف کر رہی تھیں
تھا پچھلے پہر خطاب کیسا


قطرہ قطرہ چمک رہا ہے
روشن ہوا زیر آب کیسا


میں اپنے خلاف ہو گیا ہوں
نازل ہوا یہ عذاب کیسا


مدت سے ہے بند قفل ابجد
اے محتسبو حساب کیسا


سب موج ہوا میں رنگ اس کے
اے مومنو اجتناب کیسا


دیوار کا بوجھ بام پر ہے
یہ گھر بھی ہوا خراب کیسا