پہلے تو درد دل کا خلاصہ کرے کوئی

پہلے تو درد دل کا خلاصہ کرے کوئی
تب ان سے شرح حال تمنا کرے کوئی


درد جگر کا پہلے مداوا کرے کوئی
جب تو مسیح ہونے کا دعویٰ کرے کوئی


ممکن نہیں کہ صفحۂ ہستی پہ مل سکے
میرے نشان قبر کو ڈھونڈھا کرے کوئی


بدلے نہ کروٹیں بھی کوئی فرش خواب پر
غم سے تڑپ تڑپ کے سویرا کرے کوئی


سننا ہے درد دل کی مرے داستاں اگر
پتھر کا پہلے اپنا کلیجہ کرے کوئی


شام شب فراق ہے تاکید ضبط آہ
دل میں اٹھے جو درد تو پھر کیا کرے کوئی


خاموش اس طرح سے ہوئے ساکنان قبر
دیتے نہیں جواب پکارا کرے کوئی


شعلہؔ محال ہے کہ بڑھے دل کی روشنی
جب تک خیال دوست نہ پیدا کرے کوئی