پہلے کیا گیا مجھے یکتائے رنگ و بو (ردیف .. ے)

پہلے کیا گیا مجھے یکتائے رنگ و بو
پھر رنج کی تہوں میں اتارا گیا مجھے


تو اضطراب میں ہی لیا ہوگا میرا نام
ورنہ کبھی سکوں میں پکارا گیا مجھے


ماتھے پہ لکھ دیا گیا اس خوش ادا کا ہجر
اور ہجر کے دروں میں سنوارا گیا مجھے


پیروں کو روکتی رہی آواز رفتگاں
صحرائے خاک و خوں میں اتارا گیا مجھے


اب مجھ میں ڈھونڈیئے نہ نشاں شہر ذات کا
ہجرت کے روزنوں میں نتھارا گیا مجھے


اس سے بھی دل کا ساتھ کوئی دیر ہی رہا
جس خواب کے فسوں میں اتارا گیا مجھے


وہ شہر سرنگوں کہ جہاں دل کہے جسے
اس شہر سرنگوں میں سنوارا گیا مجھے