پگڈنڈی لگ رہی تھی پہاڑوں کے درمیاں

پگڈنڈی لگ رہی تھی پہاڑوں کے درمیاں
نکلی ہوئی تھی مانگ یوں بالوں کے درمیاں


پہلے تکلفات سبھی بر طرف ہوئے
پھر گفتگو شروع ہوئی آنکھوں کے درمیاں


ہجر و فراق اور یہ تنہائی مار دے
وقفہ اگر نہ دن کا ہو راتوں کے درمیاں


سینے پہ ہاتھ کیا رکھا دھڑکن سنبھل گئی
ہچکی سی ایک قید تھی سانسوں کے درمیاں


کم بخت سب کے سامنے لے دے نہ تیرا نام
میں نے زبان داب لی دانتوں کے درمیاں


قائم ہے اس کے دم سے ہی دم خم انا غرور
سر نام کی جو چیز ہے شانوں کے درمیاں


پہلے میں بات کر لوں ذرا غم شناس کی
تیرا بھی ہوگا تذکرہ شعروں کے درمیاں


کمزور سی نحیف سی بلبل کے واسطے
گھمسان کی لڑائی تھی چیلوں کے درمیاں


سادہ دلی تو دیکھیے دانش عزیزؔ کی
اک گھر بنا رہا ہے مکانوں کے درمیاں