مجھ کو تھپک تھپک کے سلاتا رہا چراغ
مجھ کو تھپک تھپک کے سلاتا رہا چراغ
پہلو میں رات بھر مرے بیٹھا رہا چراغ
کہتا رہا کہ رات یہ کتنی حسین ہے
تیرہ شبی کا گریہ بھی کرتا رہا چراغ
سورج کا ایک بار فقط نام کیا لیا
مجھ سے تمام رات ہی لڑتا رہا چراغ
اس کو مری شکست کی اتنی خوشی ہوئی
ہاتھوں پہ ہاتھ مار کے ہنستا رہا چراغ
میں اس کی زرد لو میں خدا دیکھتا رہا
کمرے میں رات بھر مرے جلتا رہا چراغ
تب تک مرے قلم نے فقط روشنی لکھی
جب تک ہتھیلی پر مری لکھتا رہا چراغ
پہلو میں اس کے کل تری تصویر تھی پڑی
غزلیں ترے جمال پہ کہتا رہا چراغ
آنکھیں مری بھی سرخ تھیں وہ بھی بجھا بجھا
یوں میرے ساتھ ساتھ ہی روتا رہا چراغ
میں اس کے پاس بیٹھ کے کہتا رہا غزل
اور پورے انہماک سے سنتا رہا چراغ
کل اس کے ساتھ میری بڑی گفتگو ہوئی
میری کہانی سن کے سسکتا رہا چراغ
ترک تعلقات کا میثاق جب ہوا
میرے اور اس کے درمیاں بیٹھا رہا چراغ
جانے ہوا نے کیا کہا کانوں میں اس کے کل
دانشؔ تمام رات مچلتا رہا چراغ