نمو تو پہلے بھی تھا اضطراب میں نے دیا

نمو تو پہلے بھی تھا اضطراب میں نے دیا
پھر اس کے ظلم و ستم کا جواب میں نے دیا


وہ ایک ڈوبتی آواز باز گشت کہ آ
سوال میں نے کیا تھا جواب میں نے دیا


وہ آ رہا تھا مگر میں نکل گیا کہیں اور
سو زخم ہجر سے بڑھ کر عذاب میں نے دیا


اگرچہ ہونٹوں پہ پانی کی بوند بھی نہیں تھی
سلگتے لمحوں کو ایک سیل آب میں نے دیا


کھلا ہے پہلوئے پرجوش بے محابا آ
اک اور مشورۂ انقلاب میں نے دیا


یہ مجھ سے گریہ بے باک کیوں نہیں ہوتا
تو اپنے درد کو خود پیچ و تاب میں نے دیا


نخیل و کشت کو سیراب میں نہیں کرتا
زمیں کو قرض مگر بے حساب میں نے دیا


بدن خود اپنی ہی تجسیم کر نہیں پاتے
قریب آیا تو آنکھوں کو خواب میں نے دیا