نیت اگر خراب ہوئی ہے حضور کی

نیت اگر خراب ہوئی ہے حضور کی
گڑھ لو کوئی کہانی ہمارے قصور کی


کیوں دل کی آگ لے نہ خبر دور دور کی
کوندی ہے ہر دماغ میں بجلی فتور کی


ہر ظلم پر کیا ہے زمانے سے احتجاج
کچھ بھی نہ بن پڑا تو مذمت ضرور کی


تعمیر کا تو وقت ہے تخریب کا جنوں
اب بھی ہے آدمی کو ضرورت شعور کی


اے شام غم کی گہری خموشی تجھے سلام
کانوں میں ایک آئی ہے آواز دور کی


ہوش اڑ گئے تو ہوش حقیقت کا آ گیا
موسیٰ کی بے حسی میں تجلی تھی نور کی


کہتا ہے انقلاب زمانہ جسے فلکؔ
اک دنیا منتظر ہے اسی کے ظہور کی