نیند ہے اور نہ خواب آنکھوں میں
نیند ہے اور نہ خواب آنکھوں میں
اترا کیسا عذاب آنکھوں میں
دل میں ویرانیاں بسیں جب سے
ہیں کھٹکتے گلاب آنکھوں میں
میرے اشکوں نے عمر بھر لکھی
ایک غم کی کتاب آنکھوں میں
خون بھی دیکھنے سے ڈرتی ہیں
اب نہیں اور تاب آنکھوں میں
سہہ نہ پاؤ گے جھانک کر دیکھو
میرا ڈھلتا شباب آنکھوں میں
میرے سارے سوال کا اس کی
مل گیا ہے جواب آنکھوں میں
سعدؔ دل بے قرار تھا جتنا
تھا وہی اضطراب آنکھوں میں