ہماری عقل پر تالے پڑے ہیں

ہماری عقل پر تالے پڑے ہیں
کھنڈر ہے ذہن اور جالے پڑے ہیں


بظاہر صاف آتے ہیں نظر دل
مگر اندر سے یہ کالے پڑے ہیں


کبھی دیکھو پلٹ کر آستیں کو
کئی ہی سانپ ہم پالے پڑے ہیں


میسر کیسے ہو دو وقت روٹی
کہ جب اک وقت کے لالے پڑے ہیں


کریں خود ہی خزاؤں کے حوالے
چمن کے ایسے رکھوالے پڑے ہیں


بہت رویا جدا ہو کر وہ شاید
تبھی تو آنکھ میں ہالے پڑے ہیں


دہکتے راستے پر چل پڑے تھے
ابھی تک پاؤں میں چھالے پڑے ہیں


لٹا سکتے ہیں الفت میں وہ جانیں
بہت اے سعدؔ متوالے پڑے ہیں