نئے ہر روز ہوتے حادثے اچھے نہیں لگتے
نئے ہر روز ہوتے حادثے اچھے نہیں لگتے
بہت حالات بھی سہمے ہوئے اچھے نہیں لگتے
محافظ ہے ترا دامن بہت ہی خون میں آلود
مگر یہ داغ دامن پر ترے اچھے نہیں لگتے
فقط امن و اماں کی بات ہو تو اچھا لگتا ہے
دلوں میں خوف دہشت وسوسے اچھے نہیں لگتے
قدم پچھلا اٹھائے گا تبھی آگے بڑھے گا تو
شکستہ دل شکستہ حوصلے اچھے نہیں لگتے
زیادہ جانتے ہیں جو زیادہ چپ ہی رہتے ہیں
اگر ہم بھی زیادہ بولتے اچھے نہیں لگتے
چلو مل کر رہیں جب پھول اک ڈالی کے ہیں دونوں
گلوں کے درمیاں یہ فاصلے اچھے نہیں لگتے
امیری اور غریبی دیکھ کر یہ فیصلے کرنا
امیر شہر تیرے فیصلے اچھے نہیں لگتے
تمہیں آواز دیتا ہوں چلے آؤ جہاں ہو تم
تمہارے ہجر میں اب رت جگے اچھے نہیں لگتے
نصیحت اور حکایت ہے نئی نسلوں کی ہی خاطر
پرانے دور کے اب فلسفے اچھے نہیں لگتے
کبھی بارش کبھی گرمی کبھی سردی ضروری ہے
کسی کو سعدؔ موسم ایک سے اچھے نہیں لگتے