نگاہیں پھیر کر اپنی خودی سے
نگاہیں پھیر کر اپنی خودی سے
رہے اک عمر خود میں اجنبی سے
تعلق کیا مرا غم اور خوشی سے
شکایت ہی نہیں ہم کو کسی سے
قضا کے در پہ دستک دینے والا
بہت کچھ چاہتا تھا زندگی سے
وصال و ہجر کا احساس کیسا
سبھی ہم سے ملے ہیں اجنبی سے
خبر تم کو نہیں یاروں کہ میں نے
لیا ہے کام کتنا بے حسی سے
نہ جانے کس سے کہنا چاہتا ہوں
وہ باتیں جو نہیں کہتا کسی سے
ہے دل میں دفن اشکوں کا سمندر
بدن کو آگ لگتی ہے نمی سے
اندھیروں سے نبھانا چاہتا ہوں
وہ رشتہ جو کبھی تھا روشنی سے