ابد تنہا اجل تنہا ملے سب بحر و بر تنہا

ابد تنہا اجل تنہا ملے سب بحر و بر تنہا
جہاں تک ہو سکا کرتا رہا میں بھی سفر تنہا


وہ ہی وہ ہے ادھر تنہا میں ہی میں ہوں ادھر تنہا
یہ تنہائی عجب شے ہے خدا تنہا بشر تنہا


بسر کرتا ہے مدت سے مرے جیسا کوئی مجھ میں
اسے کہہ دو چلا جائے مجھے وہ چھوڑ کر تنہا


میں تیری سمت آ جاؤں کہ جاؤں غیر کی جانب
کشاکش میں ہوں الجھا درمیان خیر و شر تنہا


یہ دنیا گاؤں میں بدلی ہوئے ہیں رابطے آساں
مگر اس بھیڑ میں ہوتا گیا اک اک بشر تنہا


یہ تنہائی یہ خاموشی یہ ویرانی یہ اندھیارا
اسی محفل میں رہتا ہوں میں اب شام و سحر تنہا


کھلے ہیں راز سب اس کے حقیقت ہے عیاں لیکن
الجھتا ہے نہ جانے کیوں خیال بے خبر تنہا