نظروں سے بصیرت کی نہاں کچھ بھی نہیں ہے
نظروں سے بصیرت کی نہاں کچھ بھی نہیں ہے
سب کچھ ہے جہاں اور جہاں کچھ بھی نہیں ہے
ہم مٹ گئے اس فطرت آشفتہ کی خاطر
حالانکہ وہ غارت گر جاں کچھ بھی نہیں ہے
دل کی جو نہ کہیے تو زباں کاشف اسرار
اور دل کی جو کہیے تو زباں کچھ بھی نہیں ہے
دل والوں کو دل والوں سے ہے حرف و حکایت
ظاہر میں محبت کا نشاں کچھ بھی نہیں ہے
رنگین و نظر سوز مناظر سے گزر کر
پہنچا ہوں وہاں میں کہ جہاں کچھ بھی نہیں ہے
یہ عشق کی ظاہر ہو تو ہل جائیں دو عالم
جز چند اشارات نہاں کچھ بھی نہیں ہے
مجھ خوگر بیگانگئ دوست کو عالیؔ
بیگانگئ اہل جہاں کچھ بھی نہیں ہے