نظم
مرے شہر میں مری آخری
وہ عجیب شب تھی وصال کی
کہ چمن میں چھایا دھواں سا تھا
کہاں شبنمی وہ بہار تھی
وہ چنبیلی خوشبو بکھیرتی
وہ بھری سی شاخیں گلاب سی
کہ ہر ایک پتی تھی نوحہ خواں
تھی کلی کلی بھی نڈھال سی
تھے وہ مجھ سے جیسے گلہ کناں
میں چلی ہوں کیوں انہیں چھوڑ کے
تھیں لرزتی کانپتی ڈالیاں
کہ لبوں پہ سب کے تھے مرثیے
یہ بیان کرتے تھے پیرہن
ہمیں خود سے تم نہ جدا کرو
تری خوشبوؤں میں بسے ہیں ہم
ہمیں اپنے ساتھ ہی لے چلو
تھا عجیب شور سا ہر طرف
کہ سماعتیں بھی لرز گئیں
مری سسکیاں مری آہیں بھی
مرے دل میں خوف سے جا چھپیں
نہ سمے رکا نہ میں رک سکی
کہ وطن ہی مجھ سے بچھڑ گیا
وہی مٹی جس کا خمیر تھی
وہی شہر مجھ سے بچھڑ گیا