نظر میں کوئی منزل ہے نہ جادہ چاہتا ہوں
نظر میں کوئی منزل ہے نہ جادہ چاہتا ہوں
سفر چاہے کوئی ہو بے ارادہ چاہتا ہوں
خوشی کا کیا خوشی میں چاہے کچھ تخفیف کر دو
متاع غم زیادہ سے زیادہ چاہتا ہوں
مرا مفہوم آسانی سے کھل جائے جہاں پر
میں اپنا لہجۂ اظہار سادہ چاہتا ہوں
مری نظروں کو وسعت دو جہاں کی دینے والے
میں دامان تخیل بھی کشادہ چاہتا ہوں
قیادت مجھ پہ نازاں تھی کبھی منزل بمنزل
اور اب خود ہی قیادت جادہ جادہ چاہتا ہوں
بہت تلخی بھرے حالات میں جینا پڑا ہے
اسی تلخی کی خاطر تلخ بادہ چاہتا ہوں
میں خود پہنچوں کہ میرے قدموں میں چلی آئی
بہ ہر صورت میں تکمیل ارادہ چاہتا ہوں
مسلسل چاہیے کی بات ہے اور برملا ہے
سوال اس کا نہیں کم یا زیادہ چاہتا ہوں
جہان تنگ کی تنگی سے میرا کیا علاقہ
وسیع القلب ہوں دنیا کشادہ چاہتا ہوں
ترے دامن کشاں رہنے کا مطلب کیا ہے مجھ سے
یہی تو ہے کہ میں تجھ کو زیادہ چاہتا ہوں
الگ تشکیل دینا چاہتا ہوں اپنی منزل
وقارؔ اپنے لئے مخصوص جادہ چاہتا ہوں