سفر جس میں نہ ہو تو ہم سفر اچھا نہیں لگتا
سفر جس میں نہ ہو تو ہم سفر اچھا نہیں لگتا
گوارا کر لیا جائے مگر اچھا نہیں لگتا
جو سچ پوچھو تو گھر کی ساری رونق اس کے دم سے ہے
وہ جان جاں نہ ہو گھر میں تو گھر اچھا نہیں لگتا
ہتک آمیز نظروں سے کوئی دیکھے جہاں ہم کو
قدم رکھنا بھی اس دہلیز پر اچھا نہیں لگتا
خداوندا ترا بندہ جو مانگے اس کو مل جائے
دعائے دل ہو محروم اثر اچھا نہیں لگتا
کسی کی جستجو ہے جو لئے پھرتی ہے برسوں سے
ہمیں پھرنا اگرچہ در بدر اچھا نہیں لگتا
تخیل کو پر پرواز دینا بھی ضروری ہے
بغیر اس کے خلاؤں کا سفر اچھا نہیں لگتا
ہر اک پل نت نئے جلووں کی شیدائی ہوں جو آنکھیں
کوئی اک چہرہ ان کو رات بھر اچھا نہیں لگتا
کسی سرکش کے آگے سر اگر جبراً بھی جھک جائے
وبال دوش ہو جاتا ہے سر اچھا نہیں لگتا
مری روداد غم پر ترش لہجے میں کہا اس نے
یہ رونا روز و شب شام و سحر اچھا نہیں لگتا
رلاتا بھی ہے وہ ظالم مجھے پھر یہ بھی کہتا ہے
ترا دامن ہے کیوں اشکوں سے تر اچھا نہیں لگتا
اچھالا کرتے ہیں اکثر وقارؔ اوروں کے عیبوں کو
وہ جن کو پردہ پوشی کا ہنر اچھا نہیں لگتا